فلمی گیت
ان کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی
سمجھے کوئی دیوانہ جانے کوئی سودائی
ان کا ہی تصور ہے۔۔۔
نغموں کا بھرم ٹوٹا مے خانے کا در چھوٹا
جب ساز چھڑا کوئی، آواز تیری آئی
تو آئے تجھے دیکھوں اور جاں سے گزر جاؤں
اس آس پہ زندہ ہے اب تک تیرا شیدائی
ان کا ہی تصور ہے۔۔۔
الزام ہر اک ہنس کے ہم نے سہا بے گانہ
ہونے نہ دی چاہت کی ہم نے کبھی رسوائی
ان کا ہی تصور ہے۔۔۔
پہلے سے مراسم تو باقی نہ رہے پھر بھی
جب زخم لگا کوئی، کیوں یاد تیری آئی
ان کا ہی تصور ہے۔۔۔
اس شہر کا مے خانہ دنیا سے نرالا تھا
ساقی بھی تھا ہرجائی میخانہ بھی ہرجائی
ان کا ہی تصور ہے۔۔۔
تسلیم فاضلی
No comments:
Post a Comment