ہجر آباد
سردیوں کی پہلی بارش ہے
تمہاری یاد ہے ویران کمرہ ہے کتابیں ہیں
اداسی ہے خموشی ہے
چراغوں کا دھواں ہے
اور میں ہوں
گہرا جنگل ہے عقب میں
میرے گھر کے
خوف سا طاری ہے مجھ پر
آگ بھی بجھنے لگی ہے
لکڑیاں جتنی رکھیں
تھیں ضبط کی انگیٹھی میں
سب ہو گئیں ہیں برف جیسی
سب کتابیں پڑھ چکی ہوں
خون جمتا جا رہا ہے
تم کہاں ہو
سردیوں کی پہلی بارش ہے
جانتے ہو لوٹ آؤ
تم نہیں آئے اگر تو دیکھنا میں
کیا کروں گی
جانتی ہوں تم کہاں ہو
میں تمہارا لمس اور خوشبو
چرانے کے لیے سازش کروں گی
میں ہوا کا ساتھ دوں گی
میں پرندوں سے کہوں گی
میں ندی نالوں سے منت بھی کروں گی
وہ تمہارا لمس لا دیں گے مجھے میں اوڑھ کر
سو جاؤں گی کھو جاؤں گی تم میں کہیں بس
سردیوں کی پہلی بارش یاد رکھنا
سعدیہ صفدر سعدی
No comments:
Post a Comment