Thursday 4 January 2018

ہجر آباد جانتی ہوں تم کہاں ہو

ہجر آباد

سردیوں کی پہلی بارش ہے 
تمہاری یاد ہے ویران کمرہ ہے کتابیں ہیں 
اداسی ہے خموشی ہے
چراغوں کا دھواں ہے
اور میں ہوں 
سامنے کھڑکی کھلی ہے
گہرا جنگل ہے عقب میں
میرے گھر کے 
خوف سا طاری ہے مجھ پر
آگ بھی بجھنے لگی ہے
لکڑیاں جتنی رکھیں 
تھیں ضبط کی انگیٹھی میں 
سب ہو گئیں ہیں برف جیسی
سب کتابیں پڑھ چکی ہوں 
خون جمتا جا رہا ہے 
تم کہاں ہو
سردیوں کی پہلی بارش ہے
جانتے ہو لوٹ آؤ
تم نہیں آئے اگر تو دیکھنا میں 
کیا کروں گی 
جانتی ہوں تم کہاں ہو
میں تمہارا لمس اور خوشبو 
چرانے کے لیے سازش کروں گی
میں ہوا کا ساتھ دوں گی
میں پرندوں سے کہوں گی
میں ندی نالوں سے منت بھی کروں گی
وہ تمہارا لمس لا دیں گے مجھے میں اوڑھ کر 
سو جاؤں گی کھو جاؤں گی تم میں کہیں بس
سردیوں کی پہلی بارش یاد رکھنا 

سعدیہ صفدر سعدی

No comments:

Post a Comment