Saturday, 20 January 2018

عمر گزرے گی امتحان میں کیا

عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دینگے مجھ کو دان میں کیا
مِری ہر بات بے اثر ہی رہی
نَقص ہے کچھ مِرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
خود کو جانا جدا زمانے سے
آ گیا تھا مِرے گمان میں کیا
شام  ہی سے دکانِ دید ہے بند
نہیں نقصان تک دکان میں کیا
اے مِرے صبح و شامِ دل کی شفق
تُو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment