حیراں ہے جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے
سر پر ہیں خداوند، سرِ عرش خدا ہے
کب تک اسے سینچو گے تمنائے ثمر میں
یہ صبر کا پودا تو نہ پھولا نہ پھلا ہے
ملتا ہے خراج اس کو تِری نانِ جویں سے
ہر ایک عقوبت سے ہے تلخی میں سوا تر
وہ رنج جو نا کردہ گناہوں کی سزا ہے
احسان لیے کتنے مسیحا نفسوں کے
کیا کیجیے دل کا، نہ جلا ہے نہ بجھا ہے
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment