یہ طے ہوا ہے کہ قاتل کو بھی دعا دیجے
خود اپنا خون بہا پھر بھی خوں بہا دیجے
نیاز و ناز بجا ہیں مگر یہ شرط وصال
ہے سنگ راہ تعلق اسے ہٹا دیجے
سنا تھا ہم نے کہ منزل قریب آ پہنچی
سحر قریب سہی پھر بھی کچھ بعید نہیں
چراغ بجھنے لگے ہیں تو لو بڑھا دیجے
مہکتے زخموں کو انعام فصل گل کہیے
سلگ اٹھے جو چمن برق کو دعا دیجے
کچھ اس طرح ہے کہ گزرے ہیں جس قیامت سے
سمجھئے خواب اسے خواب کو بھلا دیجے
بدل گئے ہیں تقاضے سخن شناسی کے
ادھر عطا ہو ادھر داد برملا دیجے
یہ کیا ضرور کہ احساس کو زباں مل جائے
ہے حکم نغمہ سرائی تو گنگنا دیجے
محسن بھوپالی
No comments:
Post a Comment