Sunday, 21 January 2018

یہ طے ہوا ہے کہ قاتل کو بھی دعا دیجے

یہ طے ہوا ہے کہ قاتل کو بھی دعا دیجے 
خود اپنا خون بہا پھر بھی خوں بہا دیجے 
نیاز و ناز بجا ہیں مگر یہ شرط وصال 
ہے سنگ راہ‌ تعلق اسے ہٹا دیجے 
سنا تھا ہم نے کہ منزل قریب آ پہنچی 
کہاں ہیں آپ، اگر ہو سکے صدا دیجے 
سحر قریب سہی پھر بھی کچھ بعید نہیں 
چراغ بجھنے لگے ہیں تو لو بڑھا دیجے 
مہکتے زخموں کو انعام‌ فصل گل کہیے 
سلگ اٹھے جو چمن برق کو دعا دیجے 
کچھ اس طرح ہے کہ گزرے ہیں جس قیامت سے 
سمجھئے خواب اسے خواب کو بھلا دیجے 
بدل گئے ہیں تقاضے سخن شناسی کے 
ادھر عطا ہو ادھر داد برملا دیجے 
یہ کیا ضرور کہ احساس کو زباں مل جائے 
ہے حکم نغمہ سرائی تو گنگنا دیجے

محسن بھوپالی

No comments:

Post a Comment