بکھرتا جسم میری جاں کتاب کیا ہو گا
تمہارے نام سے اب انتساب کیا ہو گا
تم اپنی نیند بھرے شہر میں تلاش کرو
جو آنکھ راکھ ہوئی اس میں خواب کیا ہو گا
وہ میری تہمتیں اپنے بدن پہ کیوں اوڑھے
ہوا میں اس کی مسافت،زمیں پہ میرا سفر
وہ شہ سوار میرا ہم رکاب کیا ہو گا
اسے گنوا کے میں اب کس کے خدوخال پڑھوں
اب اس سے بڑھ کر میرا انتخاب کیا ہو گا
ملے گا ڈوبنے والوں کو اجر جو بھی ملے
سمندروں کا مگر احتساب کیا ہو گا
ہمارے بعد ہمیں یاد کیوں کرے گا کوئی
ہوا کا نقش سر سطح آب کیا ہو گا
بکھرتے ٹوٹتےمحسن کو اور کیا کہنا
خراب اور وہ خانہ خراب کیا ہو گا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment