Tuesday 30 October 2018

ریگ دیروز ہم محبت کے خرابوں کے مکیں

ریگِ دیروز

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں 
وقت کے طول المناک کے پروردہ ہیں 
ایک تاریک ازل نور ابد سے خالی 
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا 
اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا 
ہم محبت کے نہاں خانوں میں بسنے والے 

زندگی اک پیرہ زن

زندگی اک پِیرہ زن

زندگی اک پیرہ زن
جمع کرتی ہے گلی کوچوں میں روز و شب پرانی دھجیاں
تیز، غم انگیز، دیوانہ ہنسی سے خندہ زن
بال بکھرے، دانت میلے، پیرھن
دھجیوں کا ایک سونا اور نا پیدا کراں، تاریک بن

بوئے آدم زاد

بوئے آدم زاد

بوئے آدم زاد آئی ہے کہاں سے ناگہاں؟
دیو اس جنگلے کے سناٹے میں ہیں
ہو گئے زنجیر پا خود ان کے قدموں کے نشاں
یہ وہی جنگل ہے جس کے مرغزاروں میں سدا
چاندنی راتوں میں وہ بے خوف و غم رقصاں رہے

کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم

کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

لب بیاباں، بوسے بے جاں
کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
جسم کی یہ کارگاہیں
جن کا ہیزم آپ بن جاتے ہیں ہم
نیم شب اور شہر خواب آلودہ، ہم سائے

دھرم کی بانسری سے راگ نکلے

دھرم کی بانسری سے راگ نکلے
وہ سوراخوں سے کالے ناگ نکلے
رکھو دیر و حرم کو اب مقفّل
کئی پاگل یہاں سے بھاگ نکلے
وہ گنگا جل ہو یا آبِ زمزم
یہ وہ پانی ہیں جن سے آگ نکلے

خلوت جاں کی زندگی نذر سفر تو ہو گئی

خلوتِ جاں کی زندگی نذرِ سفر تو ہو گئی
یعنی ہماری آرزو خاک بسر تو ہو گئی
سوزِ فغانِ حال سے جل گئے لب مِرے مگر
اہلِ محلۂ فراق، تم کو خبر تو ہو گئی
ہے مِرا خواب پُر عذاب، سب کے ہیں خواب مہرتاب
میری سحر نہیں ہوئی، سب کی سحر تو ہو گئی

تعاقب

تعاقب

مجھ سے پہلے کے دن
اب بہت یاد آنے لگے ہیں تمہیں
خواب و تعمیر کے گم شدہ سلسلے
بار بار اب ستانے لگے ہیں تمہیں
دکھ جو پہنچے تھے تم سے کسی کو کبھی
دیر تک اب جگانے لگے ہیں تمہیں

یہ لوگ پاگل نہیں ہوئے ہیں

پہلی آواز
ہمارے سرکار کہہ رہے تھے یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں
کہ فرقِ افلاس و زر مٹا کر نظامِ فطرت سے لڑ رہے ہیں
نظامِ دولت خدا کی نعمت، خدا کی نعمت سے لڑ رہے ہیں
ہر اک روایت سے لڑ رہے ہیں، ہر اک صداقت سے لڑ رہے ہیں
مشیتِ حق سے ہو کےغافل خود اپنی قسمت سےلڑ رہےہیں
یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں؟

زمانے بھر کو اداس کر کے

زمانے بھر کو اداس کر کے 
خوشی کا ستیا ناس کر کے 
میرے رقیبوں کو خاص کر کے 
بہت ہی دوری سے پاس کر کے 
تمہیں یہ لگتا تھا 
جانے دیں گے؟ 

Monday 29 October 2018

نکل تو آؤں سوالوں کی بھیڑ سے لیکن

نظم

نکل تو آؤں سوالوں کی بھیڑ سے لیکن
سوال یہ ہے کہ کس کس سوال سے نکلوں
ابھی تک نیند میں رہ رہ کے بچے چیختے ہیں
جو اس بستی پہ گزری آپ نے دیکھا نہیں کیا
آگ کس ہاتھ میں ہے کون دیتا ہے ہوا
کس کا کیا کھیل یہاں بستیاں جانتی ہیں

دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے

دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے
اک آدمی تو شہر میں ایسا دکھائی دے
اب بھیک مانگنے کے طریقے بدل گئے
لازم نہیں کہ ہاتھ میں کاسہ دکھائی دے
نیزے پہ رکھ کہ اور میرا سر بلند کر
دنیا کو اک چراغ تو جلتا دکھائی دے

Tuesday 16 October 2018

عشق کی جوت جگانے میں بڑی دیر لگی

عشق کی جوت جگانے میں بڑی دیر لگی 
سائے سے دھوپ بنانے میں بڑی دیر لگی 
میں ہوں اس شہر میں تاخیر سے آیا ہوا شخص
مجھ کو اک اور زمانے میں بڑی دیر لگی
یہ جو مجھ پہ کسی اپنے کا گماں ہوتا ہے
مجھ کو ایسا نظر آنے میں بڑی دیر لگی 

اب ادھورے عشق کی تکمیل ہی ممکن نہیں

اب ادھورے عشق کی تکمیل ہی ممکن نہیں 
کیا کریں پیغام کی ترسیل ہی ممکن نہیں
کیا اسے سمجھاؤں کاغذ پر لکیریں کھینچ کر 
جذبۂ بے نام کی تشکیل ہی ممکن نہیں
کس جگہ انگلی رکھوں کس حرف کو کیسے پڑھوں 
آیتِ امکاں! تِری ترتیل ہی ممکن نہیں

خمیدہ سر نہیں ہوتا میں خودداری کے موسم میں

خمیدہ سر نہیں ہوتا میں خودداری کے موسم میں
مِرا اک اپنا موسم ہے گراں باری کے موسم میں
میں ان گِرہوں میں پانی باندھ کر لایا تھا دریا سے
مِرے چہرے پہ آنکھیں تھیں، عزاداری کے موسم میں
ہمارے کھِلنے اور جھڑنے کے دن اِک ساتھ آئے تھے
ہمیں دیمک نے چاٹا ہے، شجر کاری کے موسم میں

میرے اعصاب معطل نہیں ہونے دیں گے

میرے اعصاب معطل نہیں ہونے دیں گے
یہ پرندے مجھے پاگل نہیں ہونے دیں گے
تُو خدا ہونے کی کوشش تو کرے گا، لیکن
ہم تجھے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیں گے
یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو
یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے

Friday 12 October 2018

ابھی لنگر نہیں ڈالا

ابھی لنگر نہیں ڈالا

تکونی بادباں کی رسیاں ڈھیلی نہیں کیں 
ابھی مستول اپنے پاؤں کے اوپر کھڑا ہے
سفینے کے بھرے سینے میں سانسوں کا ذخیرہ سرسراتا ہے
ابھی ہم ناقدانہ فاصلے سے اجنبی ساحل کے تیور دیکھتے ہیں
کھجوروں کے درختوں میں چھپی سرگوشیاں سننے کی خاطر 

نونہال سوال کرتا ہے

نونہال سوال کرتا ہے

میں سمجھتا تھا اسکول کے ہر طرف ایک دیوار ہے
میرے گھر کی طرح
اپنے مکتب میں آ کر مجھے ایسا لگتا
کہ گھر سے چلے اور گھر آ گئے
کیا خبر تھی گزشتہ کئی سال سے، اس کے چاروں طرف

علاج بالمثل

علاج بالمثل

دوا بالمثل بے توقیر روگوں، بے حمیت عارضوں کے واسطے 
بے مثل ہوتی ہے
کئی عشرے ہوئے ہم جاں بلب ہیں
اور مسلسل اس دوا پر ہیں
ہمیں دیکھو 

خانہ بدوش

خانہ بدوش 

نا مُشت میں میری مُشتری، نا پاؤں میں نیلوفر
نا زُہرہ میری جیب میں، نا ہُما اڑے اوپر
نا دھڑکا ہے سرطان کا، نا زُحل کا کوئی ڈر
نا کوئی میرا دیس ہے نا کوئی میرا گھر
نا ماتھے چمکے چندرما، نا تارا چھنگلی پر
پر دیکھ گلوب ہے گھومتا، میری میلی انگلی پر

Tuesday 9 October 2018

یوں دل سے کسی درد کا پیماں نہیں کرتے

یوں دل سے کسی درد کا پیماں نہیں کرتے
اب جاں پہ بنی بھی ہے تو درماں نہیں کرتے
ہر یاد کو یوں زخم بناتے نہیں دل کا
ہر تیر کو پیوستِ رگِ جاں نہیں کرتے
یہ مسٔلہ اب اہلِ محبت کا ہے اپنا
مرتے ہیں تو کچھ آپ پہ احساں نہیں کرتے

نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے

نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے 
مگر یہ بات بڑی دور جا نکلتی ہے 
ستم تو یہ ہے کہ عہدِ ستم کے جاتے ہی 
تمام خلق مِری ہم نوا نکلتی ہے 
وصال و ہجر کی حسرت میں جوئے کم مایہ 
کبھی کبھی کسی صحرا میں جا نکلتی ہے 

کشیدہ سر سے توقع عبث جھکاؤ کی تھی

کشیدہ سر سے توقع عبث جھکاؤ کی تھی 
بگڑ گیا ہوں کہ صورت یہی بناؤ کی تھی 
وہ جس گھمنڈ سے بچھڑا گِلہ تو اس کا ہے 
کہ ساری بات محبت میں رکھ رکھاؤ کی تھی 
وہ مجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا 
کہ دشمنی میں بھی شدت اسی لگاؤ کی تھی 

تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست

تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست 
تُو مری پہلی محبت تھی مِری آخری دوست 
لوگ ہر بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں 
یہ تو دنیا ہے مِری جاں! کئی دشمن کئی دوست 
تیرے قامت سے بھی لپٹی ہے امر بیل کوئی 
میری چاہت کو بھی دنیا کی نظر کھا گئی دوست