نظم
نکل تو آؤں سوالوں کی بھیڑ سے لیکن
سوال یہ ہے کہ کس کس سوال سے نکلوں
ابھی تک نیند میں رہ رہ کے بچے چیختے ہیں
جو اس بستی پہ گزری آپ نے دیکھا نہیں کیا
آگ کس ہاتھ میں ہے کون دیتا ہے ہوا
کس کا کیا کھیل یہاں بستیاں جانتی ہیں
انسان کی سفاک تمناؤں کے ہاتھوں
لاچار زمیں کی طرح کٹتا رہا پانی
سکول کے دن تھے ابھی کیا بیتی ہے ان پر
بندوق لیے ہاتھ میں بچے نکل آئے
وہ جو ہری بھری دنیا کے خواب بیچتا ہے
لہو سے کتنی زمینوں کولال اس نے کیا
یہ آخر کون پانی کو جڑوں سے کھینچ لیتا ہے
نیا موسم ہے لیکن پیڑ پہ پتہ نہیں باقی
نکل تو آؤں سوالوں کی بھیڑ سے لیکن
سوال یہ ہے کہ کس کس سوال سے نکلوں
ابھی تک نیند میں رہ رہ کے بچے چیختے ہیں
جو اس بستی پہ گزری آپ نے دیکھا نہیں کیا
آگ کس ہاتھ میں ہے کون دیتا ہے ہوا
کس کا کیا کھیل یہاں بستیاں جانتی ہیں
انسان کی سفاک تمناؤں کے ہاتھوں
لاچار زمیں کی طرح کٹتا رہا پانی
سکول کے دن تھے ابھی کیا بیتی ہے ان پر
بندوق لیے ہاتھ میں بچے نکل آئے
وہ جو ہری بھری دنیا کے خواب بیچتا ہے
لہو سے کتنی زمینوں کولال اس نے کیا
یہ آخر کون پانی کو جڑوں سے کھینچ لیتا ہے
نیا موسم ہے لیکن پیڑ پہ پتہ نہیں باقی
ظفر گورکھپوری
No comments:
Post a Comment