Monday 29 October 2018

نکل تو آؤں سوالوں کی بھیڑ سے لیکن

نظم

نکل تو آؤں سوالوں کی بھیڑ سے لیکن
سوال یہ ہے کہ کس کس سوال سے نکلوں
ابھی تک نیند میں رہ رہ کے بچے چیختے ہیں
جو اس بستی پہ گزری آپ نے دیکھا نہیں کیا
آگ کس ہاتھ میں ہے کون دیتا ہے ہوا
کس کا کیا کھیل یہاں بستیاں جانتی ہیں
انسان کی سفاک تمناؤں کے ہاتھوں
لاچار زمیں کی طرح کٹتا رہا پانی
سکول کے دن تھے ابھی کیا بیتی ہے ان پر
بندوق لیے ہاتھ میں بچے نکل آئے
وہ جو ہری بھری دنیا کے خواب بیچتا ہے
لہو سے کتنی زمینوں کولال اس نے کیا
یہ آخر کون پانی کو جڑوں سے کھینچ لیتا ہے
نیا موسم ہے لیکن پیڑ پہ پتہ نہیں باقی

ظفر گورکھپوری   

No comments:

Post a Comment