کشیدہ سر سے توقع عبث جھکاؤ کی تھی
بگڑ گیا ہوں کہ صورت یہی بناؤ کی تھی
وہ جس گھمنڈ سے بچھڑا گِلہ تو اس کا ہے
کہ ساری بات محبت میں رکھ رکھاؤ کی تھی
وہ مجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
مگر یہ درد طلب بھی سراب ہی نکلا
وفا کی لہر بھی جذبات کے بہاؤ کی تھی
اکیلے پار اتر کر یہ ناخدا نے کہا
مسافرو! یہی قسمت شکستہ ناؤ کی تھی
چراغِ جاں کو کہاں تک بچا کے ہم رکھتے
ہوا بھی تیز تھی منزل بھی چل چلاؤ کی تھی
میں زندگی سے نبرد آزما رہا ہوں فرازؔ
میں جانتا تھا یہی راہ اک بچاؤ کی تھی
احمد فراز
No comments:
Post a Comment