علاج بالمثل
دوا بالمثل بے توقیر روگوں، بے حمیت عارضوں کے واسطے
بے مثل ہوتی ہے
کئی عشرے ہوئے ہم جاں بلب ہیں
اور مسلسل اس دوا پر ہیں
ہمیں معتوب کہتے ہیں
ہمیں مجرم بنا کر وقت نے کیسی عدالت کی
کہ شہرِ جاں سے ہم چہرہ بدر ہو کر
تپکتے تنگ سینوں میں جلا وطنی کی سانسیں کھینچتے ہیں
ہمیں دیکھو
بڑے بے آسرا ہیں ہم
ہمارا گھر ہے لیکن کس قدر بے خانماں ہیں ہم
بڑے حیدر علی آتش، بڑے برگشتہ قسمت ہیں
کہ گھر کو آگ لگتی ہے تو ہم پانی بجھاتے ہیں
ہم اپنی دشت ویرانی مٹانے کے لیے صحرا کو جاتے ہیں
ہم اپنے ایک قرضے کو چکانے کے لیے
اک دوسرا قرضہ اٹھاتے ہیں
دوا بالمثل کھاتے ہیں
وحید احمد
No comments:
Post a Comment