Tuesday, 30 October 2018

یہ لوگ پاگل نہیں ہوئے ہیں

پہلی آواز
ہمارے سرکار کہہ رہے تھے یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں
کہ فرقِ افلاس و زر مٹا کر نظامِ فطرت سے لڑ رہے ہیں
نظامِ دولت خدا کی نعمت، خدا کی نعمت سے لڑ رہے ہیں
ہر اک روایت سے لڑ رہے ہیں، ہر اک صداقت سے لڑ رہے ہیں
مشیتِ حق سے ہو کےغافل خود اپنی قسمت سےلڑ رہےہیں
یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں؟

ہمارے سرکار کہہ رہے تھے اگر سبھی مالدار ہوتے
تو پھرذلیل و حقیر پیشے ہر ایک کو ناگوار ہوتے
نہ کارخانوں میں کام ہوتا نہ لوگ مصروفِ کار ہوتے
انہی سے پوچھو کہ پھر زمانے میں کس طرح کاروبار ہوتے
اگر سبھی مالدار ہوتے
تو مسجد و مندر و کلیسا میں کون صنعت گری دکھاتا
ہمارے راجوں کی اور شاہوں کی عظمتیں کون پھر جگاتا
حسین تاج اور جلیل اہرام ڈھال کر کون داد پاتا
ہماری تاریخ کو فروغِ ہنر سے پھر کون جگمگاتا
ہمارے سرکار کہہ رہے تھے، یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں؟

دوسری آواز

تم اپنی سرکار سے یہ کہنا یہ لوگ پاگل نہیں ہوۓ ہیں
یہ لوگ سب کچھ سمجھ رہے ہیں یہ لوگ سب کچھ سمجھ چکے ہیں
یہ زرد رُو نوجوان فنکار جن کی رگ رگ میں ولولے ہیں
یہ ناتوان و نحیف و ناچار جن کے قدموں میں زلزلے ہیں
یہ جن کو تم نے کچل دیا ہے یہ جن میں جینے کے حوصلے ہیں
دیا ہے فاقوں نے جنم جن کو جو بھوک کی گود میں پلے ہیں
یہ لوگ پاگل نہیں ہوۓ ہیں

نظامِ فطرت؟

نظامِ فطرت ہواۓ صحنِ چمن سے پوچھو جو پوچھنا ہے
مشامِ دیر و دیار و دشت و دمن سے پوچھو جو پوچھنا ہے
نظامِ فطرت فضاوٴں کی انجمن سے پوچھو جو پوچھنا ہے
نظامِ فطرت کو قلزمِ موجزن سے پوچھو جو پوچھنا ہے

کہ چاند سورج کی جگمگاہٹ زمیں زمیں ہے وطن وطن ہے
کلی کلی کی کنواری خوشبو روش روش ہے چمن چمن ہے
نظامِ فطرت کا بحرِ موّاج پست و بالا پہ موجزن ہے
ہوائیں کب اس کو دیکھتی ہیں کہ یہ ہے صحرا وہ انجمن ہے

وہ پیشے جن سے عروسِ تہذیب کو ملے ہیں لباس و زیور
ہے جن سے دوشیزۂٴِ تمدن چمن بدامن بہار در بر
ہے جن کا احساں تمہاری اصلوں تمہاری نسلوں پہ اور تم پر
انہیں کو تم گالیاں بھی دیتے ہو اب ذلیل و حقیر کہہ کر

سنو کہ فردوسئ زمانہ پرکھ چکا ظرفِ غزنوی کو
جو فکر و فن کو ذلیل کر کے عزیز رکھتا ہے اشرفی کو
تقدسِ بت شکن میں دیکھا تکلفِ ذوقِ بت گری کو
اب ایک ہجوِ جدید لکھنی ہے عصرِ حاضر کی شاعری کو

تم اپنے سرکار سے یہ پوچھو کہ فکر و فن کی سزا یہی ہے
ہو ان کا دل خون جن کے دم سے یہ تازگی ہے یہ دلکشی ہے
وہ جن کے خوں سے نقوش و اشکال کو درخشندگی ملی ہے
وہ جن کے ہاتھوں کی کھردراہٹ سے کشتِ تارِ حریر اگی ہے

تم اپنے سرکار سے یہ کہنا، نظامِ زر کے وظیفہ خوارو
نظامِ کہنہ کی ہڈیوں کے مجاورو اور فروش کارو
تمہاری خواہش کے بر خلاف اک نیا تمدن طلوع ہو گا
نیا فسانہ نیا ترانہ نیا زمانہ شروع ہو گا

جمود و جنبش کی رزم گاہوں میں ساعتِ جنگ آ چکی ہے
سماج کے استخواں فروشوں سے زندگی تنگ آ چکی ہے
تمہارے سرکار کہہ رہے تھے، یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں
یہ لوگ جمہور کی صدا ہیں یہ لوگ دنیا کے رہنما ہیں
یہ لوگ پاگل نہیں ہوۓ ہیں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment