نونہال سوال کرتا ہے
میں سمجھتا تھا اسکول کے ہر طرف ایک دیوار ہے
میرے گھر کی طرح
اپنے مکتب میں آ کر مجھے ایسا لگتا
کہ گھر سے چلے اور گھر آ گئے
ایک جنگل مسلسل ترقی پہ ہے
یہ نباتات تو اس زمیں کے نہیں ہیں
بتاؤ مجھے
پھر کہاں سے یہ اتنے شجر آ گئے؟
دیکھتے دیکھتے ان درختوں نے ساری نمی چوس لی
اور شاخوں پہ برگ و ثمر آ گئے
بتاؤ مجھے
میرا اسکول تھا کوئی جنگل نہیں تھا
تو پھر اس میں کیوں جانور آ گئے؟
میرا چہرہ کٹا، میرا سینہ پھٹا، روشنائی گری صفحۂ فرش پر
اور میں خون پر منہ کے بل گر گیا
میرا بستہ ہی بس نوحہ خواں تھا مِرا
میرے پہلو میں جو ہو کے شل گر گیا
ہم جماعت کے گلشن میں بیٹھے ہوئے تھے
کہ اک اک کلی باری باری گری
قرض سارے تو پیپر کرنسی کے تھے
کیوں مِرے خون کی ریزگاری گِری؟
چار عشروں کی بے غیرتی کی ہوا میں
پنپتی ہوئی
سانس لیتی ہوئی
اے گنہگار نسلو بتاؤ مجھے
میرا کفارہ کس دل سے تم کو قبول اور منظور ہے؟
ایک دستور ہے
اپنے دل کی لرزتی ہوئی سِل پہ پتھر ہتھیلی کو رکھو
کہو
ہاں قبول اور منظور ہے
وحید احمد
(سانحہ پشاور کے تناظر میں کہی گئی ایک نظم)
No comments:
Post a Comment