یوں دل سے کسی درد کا پیماں نہیں کرتے
اب جاں پہ بنی بھی ہے تو درماں نہیں کرتے
ہر یاد کو یوں زخم بناتے نہیں دل کا
ہر تیر کو پیوستِ رگِ جاں نہیں کرتے
یہ مسٔلہ اب اہلِ محبت کا ہے اپنا
خط لائیں نہ لائیں تِرا، ہم نامہ بروں کو
بس دیکھتے رہتے ہیں پریشاں نہیں کرتے
ایسا بھی تو رکھتے نہیں خنجر پہ گلو کو
اتنا بھی تو قاتل کو پشیماں نہیں کرتے
کب شمعیں جلاتا ہے شبِ ماہ میں کوئی
تُو آۓ تو ہم گھر میں چراغاں نہیں کرتے
لوگوں کو گماں تک نہیں ہوتا جنوں کا
ہم دل کی طرح چاک گریباں نہیں کرتے
ہم تج کے چلے آتے ہیں یارو! درِ جاناں
غالب کی طرح منتِ درباں نہیں کرتے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment