زمانے بھر کو اداس کر کے
خوشی کا ستیا ناس کر کے
میرے رقیبوں کو خاص کر کے
بہت ہی دوری سے پاس کر کے
تمہیں یہ لگتا تھا
سبھی کو جا کے ہماری باتیں
بتاؤ گے اور
بتانے دیں گے ؟
تم ہم سے ہٹ کر وصالِ ہجراں
مناؤ گے اور
منانے دیں گے ؟
میری نظم کو نیلام کر کے
کماؤ گے اور
کمانے دیں گے ؟
تو جاناں سن لو
اذیتوں کا ترانہ سن لو
کہ اب کوئی سا بھی حال دو تم
بھلے ہی دل سے نکال دو تم
کمال دو یا زوال دو تم
یا میری گندی مثال دو تم
میں پھر بھی جاناں
میں پھر بھی جاناں
پڑا ہوا ہوں، پڑا رہوں گا
گڑا ہوا ہوں، گڑا رہوں گا
اب ہاتھ کاٹو یا پاؤں کاٹو
میں پھر بھی جاناں کھڑا رہوں گا
بتاؤں تم کو؟
میں کیا کروں گا؟
میں اب زخم کو زبان دوں گا
میں اب اذیت کو شان دوں گا
میں اب سنبھالوں گا ہجر والے
میں اب سبھی کو مکان دوں گا
میں اب بلاؤں گا سارے قاصد
میں اب جلاؤں گا سارے حاسد
میں اب تفرقے کو چیر کر پھر
میں اب مٹاؤں گا سارے فاسد
میں اب نکالوں گا سارا غصہ
میں اب اجاڑوں گا تیرا حصہ
میں اب اٹھاؤں گا سارے پردے
میں اب بتاؤں گا تیرا قصہ
مزید سن لو
او نفرتوں کے یزید سن لو
میں اب نظم کا سہارا لوں گا
میں ہر ظلم کا کفارہ لوں گا
اگر تو جلتا ہے شاعری سے
تو یہ مزہ میں دوبارہ لوں گا
میں اتنی سختی سے کھو گیا ہوں
کہ اب سبھی کا میں ہو گیا ہوں
کوئی بھی مجھ سا نہی ملا جب
خود اپنے قدموں میں سو گیا ہوں
میں اب اذیت کا پیر ہوں جی
میں عاشقوں کا فقیر ہوں جی
کبھی میں حیدر کبھی علی ہوں
جو بھی ہوں اب اخیر ہوں جی
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment