کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
لب بیاباں، بوسے بے جاں
کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
جسم کی یہ کارگاہیں
جن کا ہیزم آپ بن جاتے ہیں ہم
کہ جیسے دزدِ شبِ گرداں کوئی
شام سے تھے حسرتوں کے بندہ بے دام ہم
پی رہے تھے جام پر ہر جام ہم
یہ سمجھ کر، جرعۂ پنہاں کوئی
شاید آخر، ابتدائے راز کا ایما بنے
مطلب آساں، حرف بے معنی
تبسّم کے حسابی زاویے
متن کے سب حاشیے
جن سے عیش خام کے نقش ریا بنتے رہے
اور آخر بُعد جسموں میں سر مو بھی نہ تھا
جب دلوں کے درمیاں حائل تھے سنگیں فاصلے
قرب چشم و گوش سے ہم کون سی الجھن کو سلجھاتے رہے
کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
شام کو جب اپنی غم گاہوں سے دزدانہ نکل آتے ہیں ہم
زندگی کو تنگنائے تازہ تر کی جستجو
یا زوال عمر کا دیو سبک پا رو برو
یا انا کے دست و پا کو وسعتوں کی آرزو
کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
ن م راشد
No comments:
Post a Comment