نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے
مگر یہ بات بڑی دور جا نکلتی ہے
ستم تو یہ ہے کہ عہدِ ستم کے جاتے ہی
تمام خلق مِری ہم نوا نکلتی ہے
وصال و ہجر کی حسرت میں جوئے کم مایہ
میں کیا کروں مِرے قاتل! نہ چاہنے پر بھی
تِرے لیے مِرے دل سے دعا نکلتی ہے
وہ زندگی ہو کہ دنیا، فرازؔ کیا کیجے
کہ جس سے عشق کرو بے وفا نکلتی ہے
احمد فراز
Zabardast
ReplyDeleteBhut khub
ReplyDelete