خلوتِ جاں کی زندگی نذرِ سفر تو ہو گئی
یعنی ہماری آرزو خاک بسر تو ہو گئی
سوزِ فغانِ حال سے جل گئے لب مِرے مگر
اہلِ محلۂ فراق، تم کو خبر تو ہو گئی
ہے مِرا خواب پُر عذاب، سب کے ہیں خواب مہرتاب
وصل و فراق کیا بھلا، وقت تو سہہ لیا گیا
اس کی گزر تو ہو گئی، میری بسر تو ہو گئی
دل ہمہ زخم زخم ہے، جاں ہمہ داغ داغ ہے
پیکرِ پُر نگار پر ایک نظر تو ہو گئی
سُوۓ شمالِ سبز سے آئی تھی ایک سرخ موج
یعنی نشاطِ دل کی یاد، خون میں تر ہو گئی
تجھ کو بھلا گلہ ہے کیوں، تُو جو ہے زار اور زبوں
جونؔ تِری مہم جو تھی، ہار کے سر تو ہو گئی
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment