اب ادھورے عشق کی تکمیل ہی ممکن نہیں
کیا کریں پیغام کی ترسیل ہی ممکن نہیں
کیا اسے سمجھاؤں کاغذ پر لکیریں کھینچ کر
جذبۂ بے نام کی تشکیل ہی ممکن نہیں
کس جگہ انگلی رکھوں کس حرف کو کیسے پڑھوں
تہمتِ رسوائی کیسے عشق پر رکھتا کوئی
ایسے کاموں میں تو ایسی ڈھیل ہی ممکن نہیں
کنجِ نسیاں میں پڑے دھندلا گئے اس کے نقوش
اب تو اس خوش رنگ کی تمثیل ہی ممکن نہیں
اور بھی کچھ صورتیں بن جائیں گی رسوائی کی
عشق میں تابؔش فقط تذلیل ہی ممکن نہیں
عباس تابش
No comments:
Post a Comment