Tuesday, 16 October 2018

اب ادھورے عشق کی تکمیل ہی ممکن نہیں

اب ادھورے عشق کی تکمیل ہی ممکن نہیں 
کیا کریں پیغام کی ترسیل ہی ممکن نہیں
کیا اسے سمجھاؤں کاغذ پر لکیریں کھینچ کر 
جذبۂ بے نام کی تشکیل ہی ممکن نہیں
کس جگہ انگلی رکھوں کس حرف کو کیسے پڑھوں 
آیتِ امکاں! تِری ترتیل ہی ممکن نہیں
تہمتِ رسوائی کیسے عشق پر رکھتا کوئی 
ایسے کاموں میں تو ایسی ڈھیل ہی ممکن نہیں
کنجِ نسیاں میں پڑے دھندلا گئے اس کے نقوش 
اب تو اس خوش رنگ کی تمثیل ہی ممکن نہیں
اور بھی کچھ صورتیں بن جائیں گی رسوائی کی 
عشق میں تابؔش فقط تذلیل ہی ممکن نہیں

عباس تابش

No comments:

Post a Comment