Wednesday 30 September 2020

جو ہے یاں آسائش رنج و محن میں مست ہے

 جو ہے یاں آسائش رنج و محن میں مست ہے 

کوچۂ جاناں میں ہم ہیں، قیس بَن میں مست ہے 

تیرے کوچے میں ہے قاتل رقص گاہ عاشقاں 

کوئی غلطاں سر بکف، کوئی کفن میں مست ہے 

میکدے میں بادہ کش بتخانے میں ہیں بت پرست 

جو ہے عالم میں وہ اپنی انجمن میں مست ہے 

امید دید دوست کی دنیا بسا کے ہم

 امیدِ دیدِ دوست کی دنیا بسا کے ہم

بیٹھے ہیں مہر و ماہ کی شمعیں جلا کے ہم

وہ راستے خبر نہیں کس سمت کھو گئے

نکلے تھے جن پہ رختِ غمِ دل اٹھا کے ہم

پلکوں سے جن کو جلتے زمانوں نے چن لیا

وہ پھول، اس روش پہ، تِرے نقشِ پا کے ہم

طویل ہجر ہے اک مختصر وصال کے بعد

 طویل ہجر ہے اک مختصر وصال کے بعد

میں اور ہو گیا تنہا تِرے خیال کے بعد

تپش اک اور ہے دن کی حرارتوں کے سوا

سفر اک اور ہے سورج تِرے زوال کے بعد

کسی سے رکھتے کہاں دشمنی کا رشتہ ہم

لہو کو سرد بھی ہونا تھا اک ابال کے بعد

ہے مری زیست ترے غم سے فروزاں جاناں

 ہے مِری زیست تِرے غم سے فروزاں جاناں 

کون کہتا ہے مجھے بے سر و ساماں جاناں 

تیری یادیں مِرے ہمراہ بہ ہر گام ہیں جب 

میں نے سمجھا ہی نہیں خود کو پریشاں جاناں 

نبض احساس بہت سست ہوئی جاتی ہے 

دل کو درکار ہے پھر درد کا پیکاں جاناں 

کبھی حیات کا غم ہے کبھی ترا غم ہے

 کبھی حیات کا غم ہے، کبھی تِرا غم ہے

ہر ایک رنگ میں ناکامیوں کا ماتم ہے

خیال تھا تِرے پہلو میں کچھ سکون ہو گا

مگر یہاں بھی وہی اضطراب پیہم ہے

مِرے حبیب مری مسکراہٹوں پہ نہ جا

خدا گواہ، مجھے آج بھی ترا غم ہے

صدا کا لوچ سخن کا نکھار لے کے چلے

 صدا کا لوچ سخن کا نکھار لے کے چلے

تِری نظر سے فسون بہار لے کے چلے

تِرے جمال کی صبح جواں تھی آنکھوں میں

جبیں پہ شام ستم کا غبار لے کے چلے

رہِ وفا میں متاعِ سفر کی بات نہ پوچھ

بس ایک زندگئ مستعار لے کے چلے

کر ہی گئے تھے پیاس کا جنگل عبور ہم

 کر ہی گئے تھے پیاس کا جنگل عبور ہم

بکھرے کنارِ آب سے تھوڑی ہی دور ہم

پھر یوں ہوا کہ خود ہی اندھیروں میں کھو گئے

اک عمر بانٹتے رہے لوگوں میں نور ہم

منہ زور آندھیوں کو شکایت یہی تو ہے

دیکھیں نہ اشتیاق سے پیڑوں پہ بُور ہم

متاع آبرو رکھی ہوئی ہے

 متاعِ آبرو رکھی ہوئی ہے

تمنا با وضو رکھی ہوئی ہے

سماعت میں مِری اب تک کسی کی

صدائے خوش گلو رکھی ہوئی ہے

جہاں پر ولولے تھے اب وہاں پر

کمندِ آرزو رکھی ہوئی ہے

اب کی بار ملو جب مجھ سے

 ایک خواہش


اب کی بار ملو جب مجھ سے

پہلی اور بس آخری بار

ہنس کر ملنا

پیار بھری نظروں سے تکنا

ایسے ملنا

جیسے ازل سے

سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے

 سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے

مجال دید پہ بجلی گرائی جاتی ہے

خدا بخیر کرے ضبط شوق کا انجام

نقاب میری نظر سے اٹھائی جاتی ہے

اسی کو جلوۂ ایمان عشق کہتے ہیں

ہجوم یاس میں بھی آس پائی جاتی ہے

کس کس کا منہ بند کرو گے کس کس کو سمجھاؤ گے

 کس کس کا منہ بند کرو گے کس کس کو سمجھاؤ گے

دل کی بات زباں پر لا کے دیکھو تم پچھتاؤ گے

آج یہ جن دیواروں کو تم اونچا کرتے جاتے ہو

کل کو ان دیواروں میں خود گھٹ گھٹ کے مر جاؤ گے

ماضی کے ہر ایک ورق پر سپنوں کی گلکاری ہے

ہم سے ناتہ توڑنے والو! کتنے نقش مٹاؤ گے

جانے وہ کون تھا اور کس کو صدا دیتا تھا

 جانے وہ کون تھا اور کس کو صدا دیتا تھا

اس سے بچھڑا ہے کوئی اتنا پتہ دیتا تھا

کوئی کچھ پوچھے تو کہتا کہ ہوا سے بچنا

خود بھی ڈرتا تھا بہت سب کو ڈرا دیتا تھا

اس کی آواز کہ بے داغ سا آئینہ تھی

تلخ جملہ بھی وہ کہتا تو مزہ دیتا تھا

کس حال میں ہے ان دنوں گھر بار دیکھ لیں

 آنگن میں چھوڑ آئے تھے جو غار دیکھ لیں

کس حال میں ہے ان دنوں گھر بار دیکھ لیں

جب آ گئے ہیں شہرِ طلسمات کے قریب

کیا چاہتی ہے نرگسِ بیمار دیکھ لیں

ہنسنا ہنسانا چھوٹے ہوئے مدتیں ہوئیں

بس تھوڑی دور رہ گئی دیوار دیکھ لیں

دشت میں ہے ایک نقش رہ گزر سب سے الگ

 دشت میں ہے ایک نقش رہگزر سب سے الگ

ہم میں ہے شاید کوئی محوِ سفر سب سے الگ

چلتے چلتے وہ بھی آخر بھیڑ میں گم ہو گیا

وہ جو ہر صورت میں آتا تھا نظر سب سے الگ

سب کی اپنی منزلیں تھیں سب کے اپنے راستے

ایک آوارہ پھرے ہم در بدر سب سے الگ

اس نے دیکھی تھی مری تصویر پہچانی نہ تھی

 عکس کا حصہ طبیعت کی پریشانی نہ تھی

اس نے دیکھی تھی مِری تصویر، پہچانی نہ تھی

ڈھونڈ لیتا تھا میں اپنی ہر خرابی کا جواز

جیسا میں بدنام تھا، ویسی پشیمانی نہ تھی

اپنے بستر پر نہیں ہوتے ہوئے ہوتا تھا میں

اتنی ویرانی تھی کمرے میں کہ ویرانی نہ تھی

احوال زندگی کو لباس بہار دے

 احوالِ زندگی کو لباسِ بہار دے

ساقی معاملات کا چہرہ نکھار دے

توہینِ زندگی ہے کنارے کی جستجو

منجدھار میں سفینۂ ہستی اتار دے

پھر دیکھ اس کا رنگ نکھرتا ہے کس طرح

دوشیزۂ خزاں کو خطابِ بہار دے

میرا دل چاک ہوا چاک گریباں کی طرح

 میرا دل چاک ہوا چاکِ گریباں کی طرح

اب گلستاں نظر آتا ہے بیاباں کی طرح

میرے سینے میں منور ہوئے یادوں کے چراغ

بزمِ خُوباں کی طرح، شہرِ نگاراں کی طرح

کوئی مونس کوئی ہمدم کوئی ساتھی نہ ملا

میں پریشاں ہی رہا زلفِ پریشاں کی طرح

میں نے چاہا تو نہیں تھا کہ کبھی ایسا ہو

 میں نے چاہا تو نہیں تھا کہ کبھی ایسا ہو

لیکن اب ٹھان چکے ہو تو چلو اچھا ہو

ہم تو یہ بھی نہیں کہتے کہ ہمیں کیا مطلب

اس کو ہوتا ہے کوئی غم تو بھلے ہوتا ہو

تم سے ناراض تو میں اور کسی بات پہ ہوں

تم مگر اور کسی وجہ سے شرمندہ ہو

تو چاہتا ہے کسی اور کو پتہ نہ لگے

 تُو چاہتا ہے کسی اور کو پتا نہ لگے

میں تیرے ساتھ پھروں اور مجھے ہوا نہ لگے

تمہارے تک میں بہت دل دکھا کے پہنچا ہوں

دعا کرو کہ مجھے کوئی بددعا نہ لگے

تجھے تو چاہیے ہے، اور ایسا چاہیے ہے

جو تجھ سے عشق کرے اور مبتلا نہ لگے

جو ترے حسن پہ مٹ جائے وہ پروانہ بنوں

 جو تِرے حسن پہ مِٹ جائے وہ پروانہ بنوں

میرے جاناں میں تِرے عشق کا افسانہ بنوں

بندگی کا وہ سلیقہ دے مجھے بندہ نواز

مٹ بھی جاؤں تو میں سنگِ درِ جانانہ بنوں

عشق نے کر دیا مجبور یہاں تک مجھ کو

جان اس بت پہ فدا کر کے میں بت خانہ بنوں

کہیں سے باس نئے موسموں کی لاتی ہوئی

 کہیں سے باس نئے موسموں کی لاتی ہوئی

ہوائے تازہ درِ نیم وا سے آتی ہوئی

بطور خاص کہاں اس نگر صبا کا ورود

کبھی کبھی یوں ہی رکتی ہے آتی جاتی ہوئی

میں اپنے دھیان میں گم صم اور ایک ساعتِ شوخ

گزر گئی مِری حالت پہ مسکراتی ہوئی

مجھ ایسے لوگ تو اے یار نہ اجڑے نہ بسے

 مجھ ایسے لوگ تو اے یار نہ اجڑے نہ بسے

کہ لگ گئے ہیں جنہیں تجھ کو دیکھنے کے نشے

تُو اس کا لہجہ تو چکھ لے کہ پھر ملے نہ ملے

تُو اس سے بات تو کر لے کہ پھر بنے نہ بنے

تُو ایسے شخص کے دل کا ملال کیا جانے

جو آئے تیری ہنسی دیکھنے کو، تُو نہ ہنسے

بچھڑنا یار سے آسان بھی نہیں ہوتا

 بچھڑنا یار سے آسان بھی نہیں ہوتا

پھر ایسے جرم کا تاوان بھی نہیں ہوتا

مصیبتوں میں اسے کام آتے دیکھا ہے

وہ شخص جس پہ کوئی مان بھی نہیں ہوتا

ہمارا راستہ کیوں روکتے ہیں سب رہزن

ہمارے پاس تو سامان بھی نہیں ہوتا

انہی ہونٹوں کے دہکائے ہوئے ہیں

 انہی ہونٹوں کے، دہکائے ہوئے ہیں

انہی آنکھوں کے زخمائے ہوئے ہیں

نبھایا ساتھ غیروں نے ہمیشہ

مگر اپنوں کے ٹھکرائے ہوئے ہیں

جنھیں آسیب کہتا ہے زمانہ

وہ سائے مجھ میں در آئے ہوئے ہیں

پیکر خاک میں تاثیر شرر دیتا ہے

 پیکرِ خاک میں تاثیرِِ شرر دیتا ہے

آتشِِ درد میں جلنے کا ثمر دیتا ہے

اک ذرا گردشِِ ایام میں کرتا ہے اسیر

دسترس میں نئے پھر شام و سحر دیتا ہے

دل پہ کرتا ہے یہ تصویر جمالِ ہستی

پھر مٹا کر اسے اک رنگِ دگر دیتا ہے

بنائی کس طرح میں نے یہ پہچان اپنوں میں

 بنائی کس طرح میں نے یہ پہچان اپنوں میں

مِرے اشعار کافی ہیں ہوا ذیشان اپنوں میں 

یہ میری سوچ کے آگے تخیل کی حسیں وادی

کچھ ایسا مرتبہ میرا کہ میں سلطان اپنوں میں

بہت مایوس رہتا ہوں یہ میری سوچ کہتی ہے

کہ جیسے ہو گیا میں بھی یہاں مہمان اپنوں میں

تھا مان بہت جس پہ جدائی نہیں دیتا

 تھا مان بہت جس پہ جدائی نہیں دیتا

اب ڈھونڈ رہا ہوں تو دکھائی نہیں دیتا

تُو قد میں بڑا ہے سو مجھے چیخنا ہو گا

کہتے ہیں بلندی پہ سنائی نہیں دیتا

پر کاٹ کے وہ بابِ قفس کھول رہا ہے

ایسا بھی نہیں ہے کہ رہائی نہیں دیتا

Tuesday 29 September 2020

شکستہ چھت میں پرندوں کو جب ٹھکانہ ملا

 شکستہ چھت میں پرندوں کو جب ٹھکانہ ملا

میں خوش ہوا کہ مِرے گھر کو بھی گھرانا ملا

فلک پہ اڑتے ہوئے بھی نظر زمیں پہ رہی

مزاج مجھ کو مقدر سے طائرانہ ملا

ہم اس کے حسن سخن کی دلیل کیا دیں گے

وہ جتنی بار ملا ہم سے برملا نہ ملا

ایک دن خواب نگر جانا ہے

 ایک دن خواب نگر جانا ہے

اور یونہی خاک بسر جانا ہے

عمر بھر کی یہ جو ہے بے خوابی

یہ اسی خواب کا ہرجانا ہے

گھر سے کس وقت چلے تھے ہم لوگ

خیر اب کون سا گھر جانا ہے

کیا گماں ہے کہ جو یقیں بھی ہے

 کیا گماں ہے کہ جو یقیں بھی ہے

ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہے

آسمان سر سے لگ رہا ہے مِرے

اور پیروں تلے زمیں بھی ہے

ہجر یہ سوچ کر گوارا کیا

ہے تو میرا ہی وہ کہیں بھی ہے

کاہے افسوس کروں جی کے چلے جانے کا

 کاہے افسوس کروں، جی کے چلے جانے کا

یہ تو ویسے بھی پجاری تھا صنم خانے کا

عشق والوں کو کبھی مات نہیں ہو سکتی

حسن فانی ہے، کسی کام نہیں آنے کا

لوگ کیا دشت میں آتے ہیں اجازت لے کر

کیا کوئی تخت نشیں ہوتا ہے ویرانے کا؟

بن سے فصیل شہر تک کوئی سوار بھی نہیں

 بن سے فصیل شہر تک کوئی سوار بھی نہیں

کس کو بٹھائیں تخت پر گرد و غبار بھی نہیں

برگ و گل و طیور سب شاخوں کی سمت اڑ گئے

قصرِ جہاں پناہ میں نقش و نگار بھی نہیں

سایوں کی زد میں آ گئیں ساری غلام گردشیں

اب تو کنیز کے لیے راہِ فرار بھی نہیں

تم سمجھتے ہو کہ میں صرف زباں کھولوں گا

 تم سمجھتے ہو کہ میں صرف زباں کھولوں گا

بات بازار میں رکھ دوں گا، دکاں کھولوں گا

پھر تری ذات پہ انگشت نمائی ہو گی

جب میں لوگوں پہ کوئی اور جہاں کھولوں گا

آج میں شہر کے بوڑھوں سے ملوں گا جا کر

آج مدت سے پڑے بند مکاں کھولوں گا

سر کو نوشہ کے مرے شاہ نے باندھا سہرا

سہرا


سر کو نوشہ کے مِرے شاہ نے باندھا سہرا 

سورۂ نور کا دِکھلاتا ہے جلوہ سہرا 

رِیش یعقوبؑ نے رکھی ہے رُخِ یوسفؑ پر 

چشمِ بد دور کہ ہے زُلفِ زُلیخا سہرا

باغِ اُلفت سے حسینوں نے جو کلیاں بینی 

اس پری کے لیے پریوں نے بنایا سہرا

ہم غیر سمجھتے اسے ایسا بھی نہیں خیر

 ہم غیر سمجھتے اسے ایسا بھی نہیں خیر

لیکن وہ کسی کا نہیں اپنا بھی نہیں خیر

جو سوچتے رہتے ہیں وہ کرنا نہیں ممکن

کرنے کے ارادے سے تو سوچا بھی نہیں خیر

شُہرا ہے کہ رسوائی کی تصدیق ہے وہ شخص

شہرت کا بھروسہ کوئی ہوتا بھی نہیں خیر

گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر

 گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر

سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر

یہ دوریوں کا سیل رواں برگ نامہ بھیج

یہ فاصلوں کے بند گراں کوئی بات کر

تیرا دیار رات مِری بانسری کی لے

اس خواب دل نشیں کو مری کائنات کر

کوئی ماضی کے جھروکوں سے صدا دیتا ہے

 کوئی ماضی کے جھروکوں سے صدا دیتا ہے

سرد پڑتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتا ہے

دلِ افسردہ کا ہر گوشہ چھنک اٹھتا ہے

ذہن جب یادوں کی زنجیر ہلا دیتا ہے

حالِ دل کتنا ہی انسان چھپائے یارو

حالِ دل اس کا تو چہرہ ہی بتا دیتا ہے

تیری طلب میں ایسے گرفتار ہو گئے

 تیری طلب میں ایسے گرفتار ہو گئے

ہم لوگ خود بھی رونقِ بازار ہو گئے

کیا خواب تھا کہ کچھ نہیں ٹھہرا نگاہ میں

کیا عکس تھا کہ نقش بہ دیوار ہو گئے

حدِ نظر بچھا تھا تری دید کا سماں

جو راستے تھے سہل وہ دشوار ہو گئے

لے اعتبار وعدۂ فردا نہیں رہا

 لے اعتبارِ وعدۂ فردا نہیں رہا

اب یہ بھی زندگی کا سہارا نہیں رہا

تم مجھ سے کیا پھرے کہ قیامت سی آ گئی

یہ کیا ہوا کہ کوئی کسی کا نہیں رہا

کیا کیا گلے نہ تھے کہ ادھر دیکھتے نہیں

دیکھا تو کوئی دیکھنے والا نہیں رہا

کمال خود ہی چھلکنے لگا عبارت سے

 کمال خود ہی چھلکنے لگا عبارت سے

جو میں نے لکھا ہے, لکھا ہے سب مہارت سے

نظارہ ایک تھا، ہم نے جدا جدا دیکھا

میں دیکھتی تھی بصیرت سے، وہ بصارت سے

اسی لیے ہے روش آنکھ کی ہوس سے تر

یہ دید بھرتی کہاں ہے کبھی نظارت سے

جسم کی ہر بات ہے آوارگی یہ مت کہو

 جسم کی ہر بات ہے آوارگی یہ مت کہو

ہم بھی کر سکتے ہیں ایسی شاعری یہ مت کہو

اس نظر کی، اس بدن کی گنگناہٹ تو سنو

ایک سی ہوتی ہے ہر اک راگنی یہ مت کہو

ہم سے دیوانوں کے بِن دنیا سنورتی کس طرح

عقل کے آگے ہے کیا دیوانگی یہ مت کہو

کون دیتا ہے یہ گلیوں میں صدا رات گئے

 چونک چونک اٹھتی ہے محلوں کی فضا رات گئے

کون دیتا ہے یہ گلیوں میں صدا رات گئے

یہ حقائق کی چٹانوں سے تراشی دنیا

اوڑھ لیتی ہے طلسموں کی ردا رات گئے

چبھ کے رہ جاتی ہے سینے میں بدن کی خوشبو

کھول دیتا ہے کوئی بندِ قبا رات گئے

گداز دل سے باطن کا تجلی زار ہو جانا

 گدازِ دل سے باطن کا تجلی زار ہو جانا

محبت اصل میں ہے روح کا بیدار ہو جانا

نویدِ عیش سے اے دل ذرا ہُشیار ہو جانا

کسی تازہ مصیبت کے لیے تیار ہو جانا

وہ ان کے دل میں شوقِ خود نمائی کا خیال آنا

وہ ہر شے کا تبسم کے لیے تیار ہو جانا

کس لئے پینے کو مانگیں بادہ و پیمانہ ہم

 کس لیے پینے کو مانگیں بادہ و پیمانہ ہم

ہو گئے بدمست ساقی دیکھ کر میخانہ ہم

کیوں کہیں اپنے کو سوزِ عشق سے بیگانہ ہم

تم جلاؤ، ہم جلیں، تم شمع ہو، پروانہ ہم

کچھ دنوں صحرا بصحرا اب اڑائیں خاک بھی

مدتوں پھرتے رہے ویرانہ در ویرانہ ہم

تمہارے سامنے میں آہ آہ کیوں نہ کروں

تمہارے سامنے میں آہ آہ کیوں نہ کروں

جو دل میں راہ نہ پاؤں تو راہ کیوں نہ کروں

فلک جو مجھ کو ستائے تو آہ کیوں نہ کروں

تباہ ہو کر اسے میں تباہ کیوں نہ کروں

لحاظ و یاس اب ایسا بھی کیا سرِ محفل

کوئی نگاہ کرے میں نگاہ کیوں نہ کروں

گھٹتی بڑھتی روشنیوں نے مجھے سمجھا نہیں

 گھٹتی بڑھتی روشنیوں نے مجھے سمجھا نہیں

میں کسی پتھر، کسی دیوار کا سایا نہیں

جانے کن رشتوں نے مجھ کو باندھ رکھا ہے کہ میں

مدتوں سے آندھیوں کی زد میں ہوں، بکھرا نہیں

زندگی بپھرے ہوئے دریا کی کوئی موج ہے

اک دفعہ دیکھا جو منظر پھر کبھی دیکھا نہیں

بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصہ نکل آیا

 بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصہ نکل آیا

مِرے دکھ سے کسی آواز کا رشتہ نکل آیا

وہ سر سے پاؤں تک جیسے سلگتی شام کا منظر

یہ کس جادو کی بستی میں دل تنہا نکل آیا

جن آنکھوں کی اداسی میں بیاباں سانس لیتے ہیں

انہیں کی یاد میں نغموں کا یہ دریا نکل آیا

شب کی آغوش میں مہتاب اتارا اس نے

شب کی آغوش میں مہتاب اتارا اس نے

میری آنکھوں میں کوئی خواب اتارا اس نے

سلسلہ ٹوٹا نہیں موم صفت لوگوں کا

پتھروں میں دل بے تاب اتارا اس نے

ہم سمجھتے تھے کہ اب کوئی نہ آئے گا یہاں

دل کے صحرا میں بھی اسباب اتارا اس نے

وہ بھی کیا دن تھے محبت بھرے دن

 گزرے ہوئے دن


وہ بھی کیا دن تھے، محبت بھرے دن

لفظ جب پانی پہ تحریر ہوا کرتے تھے

خواب تعبیر ہوا کرتے تھے

رات خاموشی سے آ جاتی تھی

دن دبے پاؤں گزر جاتا تھا

قصل کا نشہ رگ و پے میں اتر جاتا تھا

کچھ اہتمام سفر کا ضرور کرنا ہے

 کچھ اہتمام سفر کا ضرور کرنا ہے

کہ اس کے شہر سے ہو کر مجھے گزرنا ہے

میں چپ نہیں ہوں کسی مصلحت کے پیش نظر

میں جانتا ہوں کہاں اختلاف کرنا ہے

ہمارے جسم سے پتھر بندھے ہوئے ہیں مگر

سمندروں کی تہوں سے ہمیں ابھرنا ہے

بحث کیوں ہے کافر و دیں دار کی

 بحث کیوں ہے کافر و دیندار کی

سب ہے قدرت داورِ دوار کی

ہم صف ”قالوا بلیٰ“ میں کیا نہ تھے

کچھ نئی خواہش نہیں دیدار کی

ڈھونڈھ کر دل میں نکالا تجھ کو یار

تُو نے اب محنت مِری بے کار  کی

ترے ساتھ جو موسم تھے ان کا کیا حال ہوا کبھی لکھنا

 تِرے ساتھ جو موسم تھے ان کا کیا حال ہوا، کبھی لکھنا

مِرے بعد تجھے کوئی خوشی ملی کہ ملال ہوا کبھی لکھنا

کبھی ساتھ ہوا نے رقص کیا، دکھ سکھ بانٹا، سچ کہنا

کوئی ساتھ ہنسا یا رویا، کتنا نڈھال ہوا، کبھی لکھنا

جو تجھ میں تجھے تلاش کرے اور کاش کبھی ایسا ہو

کوئی لمحۂ جاں مِرے جیسا سخن مثال ہوا، کبھی لکھنا

دل سے منظور تری ہم نے قیادت نہیں کی

 دل سے منظور تِری ہم نے قیادت نہیں کی

یہ الگ بات ابھی کھل کے بغاوت نہیں کی

ہم سزا وار جو ٹھہرے تو سبب ہے اتنا

حکم حاکم پہ کبھی ہم نے اطاعت نہیں کی

دوستی میں بھی فقط ایک چلن رکھا ہے

دل نے انکار کیا ہے تو رفاقت نہیں کی

ہر چند بے نوا ہے کورے گھڑے کا پانی

 ہر چند بے نوا ہے کورے گھڑے کا پانی

دیوان میر کا ہے، کورے گھڑے کا پانی

اپلوں کی آگ اب تک ہاتھوں سے جھانکتی ہے

آنکھوں میں جاگتا ہے کورے گھڑے کا پانی

جب مانگتے ہیں سارے انگور کے شرارے

اپنی یہی صدا ہے، کورے گھڑے کا پانی

Monday 28 September 2020

لذت درد کا اظہار نہ ہونے پائے

 لذتِ درد کا اظہار نہ ہونے پائے

دیکھنا، لفظ گنہگار نہ ہونے پائے

دھوپ کی دشتِ بلا خیز میں ہم جلتے رہے

کسی سائے کے طلبگار نہ ہونے پائے

زیست میں درپئے آزار رہے وہ لمحے

جو تِری چسمِ فسوں کار نہ ہونے پائے

بھیڑ ایسی ہے کہ مجھ کو راستہ ملتا نہیں

 بھیڑ ایسی ہے کہ مجھ کو راستہ ملتا نہیں

گُل کوئی کھِلتا نہیں، شعلہ کوئی اٹھتا نہیں

اے مِرے شوقِ طلب تیرے جنوں کی خیر ہو

تُو نے کیا حدِ نِگہ کا فاصلہ دیکھا نہیں

اے غرورِ حسن میں تیرے بدن کا عکس ہوں

محوِ حیرت ہوں کہ تُو نے مجھ کو پہچانا نہیں

مجھ پہ ہیں سیکڑوں الزام مرے ساتھ نہ چل

 مجھ پہ ہیں سیکڑوں الزام مِرے ساتھ نہ چل

تُو بھی ہو جائے گا بدنام مرے ساتھ نہ چل

تُو نئی صبح کے سورج کی ہے اجلی سی کرن

میں ہوں اک دھول بھری شام مرے ساتھ نہ چل

اپنی خوشیاں مِرے آلام سے منسوب نہ کر

مجھ سے مت مانگ مِرا نام مرے ساتھ نہ چل

راہ ہستی کے ہر اک موڑ سے بچ کر نکلے

 راہ ہستی کے ہر اک موڑ سے بچ کر نکلے

اہل دانش سے تو دیوانے ہی بہتر نکلے 

وقت کی تیز ہواؤں نے عجب موڑ لیا 

پھول سے ہاتھ جو تھے ان میں بھی پتھر نکلے 

تیری یادوں کے سہارے جو گزارے ہم نے 

وہ ہی لمحات فقط اپنا مقدر نکلے 

تیرے عشق میں کافر کافر میں

 تیرے عشق میں کافر کافر میں

ہوئی عشق میں کافر کافر

کافر کافر کافر ہوئی

دین دھرم کی خبر نہ کوئی

میں ہوئی

تیرے عشق میں کافر کافر

ہوئی عشق میں کافر کافر

دو آنکھوں کی ایک ہی بانی

 دو آنکھوں کی ایک ہی بانی

کس نے بوجھی، کس نے جانی

میری آنکھ سے، کاجل نکلا

تیری آنکھ سے ٹپکا پانی

تم اس کروٹ، میں اس کروٹ

یہ ہوتی ہے پریم کہانی

دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا

دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا

یک طرفہ محبت نے کہیں کا نہیں چھوڑا

صدیوں ہوئی تہذیب سزا اور جزا کی

اک سجدۂ سرمست نے دیں کا نہیں چھوڑا

تصویر لگی رہ گئی دیوارِ کھنڈر پر

جو رشتہ مکاں سے تھا مکیں کا نہیں چھوڑا

میں ترے عشق پہ ایمان نہیں لا سکتی

 میں تِرے عشق پہ ایمان نہیں لا سکتی

معذرت ہے کہ مِری جان نہیں لا سکتی

گر تُو چاہے تو مِرے درد مجھی سے سن لے

اب میں دیواروں کے تو کان نہیں لا سکتی

یہ جدائی ہی مقدر ہے، مگر میری دعا

عرش سے وصل کا فرمان نہیں لا سکتی

دلوں سے خوف نکالا گیا تھا بچپن میں

 دلوں سے خوف نکالا گیا تھا بچپن میں

ہمیں ہوا میں اچھالا گیا تھا بچپن میں

میں اس لیے بھی سمجھتا ہوں ہجرتوں کا دکھ

مجھے بھی گھر سے نکالا گیا تھا بچپن میں

وہ اب کسی سے سنبھالے نہیں سنبھلتا ہے

جسے زیادہ سنبھالا گیا تھا بچپن میں

نئی بہار کے خوابوں میں ڈوب جاتے ہیں

 نئی بہار کے خوابوں میں ڈوب جاتے ہیں

جو ڈوبنا ہو سرابوں میں ڈوب جاتے ہیں

سوال اس نے کیا جب بھی لاجواب کیا

مِرے سوال جوابوں میں ڈوب جاتے ہیں

کسے خبر ہو کہ شب بھر کے ٹوٹتے نشے

سحر کے وقت شرابوں میں ڈوب جاتے ہیں

یہ چند لوگ ہمارے ہیں سب ہمارے نہیں

 یہ چند لوگ ہمارے ہیں، سب ہمارے نہیں

چمک رہے ہیں جو سارے سبھی ستارے نہیں

نجانے جلتے ہیں کیوں ہم سے یہ جہاں والے

ہمارے پاس تو اشعار ہیں، شرارے نہیں

وہ مسکراتا ہے اس واسطے تواتر سے

کہ اس نے میری طرح دن ابھی گزارے نہیں

آنکھ کے دشت میں پھیلی ہوئی وحشت کا جواز

 آنکھ کے دشت میں پھیلی ہوئی وحشت کا جواز

ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں تجھ سے محبت کا جواز

میں نے کب شوق سے چھوڑا ہے تِرا شہرِ جمال

خود بخود بنتا گیا تُو مِری ہجرت کا جواز

ضبط کرنا مِرا شیوہ تھا مگر آخرِ کار

آنکھ نے ڈھونڈ لیا دل سے بغاوت کا جواز

غم ہر اک آنکھ کو چھلکائے ضروری تو نہیں

 غم ہر اک آنکھ کو چھلکائے ضروری تو نہیں

ابر اٹھے اور برس جائے، ضروری تو نہیں

برق صیاد کے گھر پر بھی تو گر سکتی ہے

آشیانوں پہ ہی لہرائے، ضروری تو نہیں

راہ بر راہ مسافر کو دکھا دیتا ہے

وہی منزل پہ پہنچ جائے ضروری تو نہیں

تیری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے

 تیری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے

کبھی جھانکا تری آنکھوں میں تو ہم ہی ہم تھے

لمس کے دم سے بصارت بھی، بصیرت بھی ملی

چھو کے دیکھا تو جو پتھر تھے نرے ریشم تھے

تیری یادیں کبھی ہنستی تھیں، کبھی روتی تھیں

میرے گھر کے یہی ہیرے تھے، یہی نیلم تھے

اے اجل اے جان فانی تو نے یہ کیا کر دیا

 اے اجل اے جانِ فانی تُو نے یہ کیا کر دیا

مار ڈالا مرنے والے کو کہ اچھا کر دیا

جب تِرا ذکر آ گیا ہم دفعتاً چپ ہو گئے

وہ چھپایا رازِ دل ہم نے کہ افشا کر دیا

کس قدر بیزار تھا دل مجھ سے ضبط شوق پر

جب کہا دل کا کیا ظالم نے رسوا کر دیا

میں بتا دوں تمہیں ہر بات ضروری تو نہیں

 میں بتا دوں تمہیں ہر بات ضروری تو نہیں

آخری ہو یہ ملاقات ضروری تو نہیں

جیت جانا تمہیں دشوار نہیں لگتا تھا

آج بھی ہو گی مجھے مات ضروری تو نہیں

آدمی فہم و ذکاء سے ہے مزین، لیکن

بند ہو جائے خرافات ضروری تو نہیں

تیرے لیے سب چھوڑ کے تیرا نہ رہا میں

 تیرے لیے سب چھوڑ کے تیرا نہ رہا میں

دنیا بھی گئی عشق میں تجھ سے بھی گیا میں

اک سوچ میں گم ہوں تِری دیوار سے لگ کر

منزل پہ پہنچ کر بھی ٹھکانے نہ لگا میں

ورنہ کوئی کب گالیاں دیتا ہے کسی کو

یہ اس کا کرم ہے کہ تجھے یاد رہا میں

بٹھا کے دل میں گرایا گیا نظر سے مجھے

 بٹھا کے دل میں گرایا گیا نظر سے مجھے

دکھایا طرفہ تماشہ بلا کے گھر سے مجھے

نظر جھکا کے اٹھائی تھی جیسے پہلی بار

پھر ایک بار تو دیکھو اسی نظر سے مجھے

ہمیشہ بچ کے چلا ہوں میں عام راہوں سے

ہٹا سکا نہ کوئی میری رہگزر سے مجھے

اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی

 اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی

ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی

دامنِ موجِ صبا خالی ہوا

بُوئے گل دشتِ وفا میں کھو گئی

ہائے اس پرچھائیوں کے شہر میں

دل سی ایک زندہ حقیقت کھو گئی

محفل محفل سناٹے ہیں

 محفل محفل سناٹے ہیں

درد کی گونج پہ کان دھرے ہیں

دل تھا شور تھا ہنگامے تھے

یارو! ہم بھی تم جیسے ہیں

موج ہوا میں آگ بھری ہے

بہتے دریا کھول اٹھے ہیں

ورثۂ درد ہے تنہائی چھپا لی جائے

 ورثۂ درد ہے تنہائی چھپا لی جائے

اپنے حصے کی یہ جاگیر سنبھالی جائے

کون دیکھے گا تبسم کی نمائش سے پرے

ٹوٹی دیوار پہ تصویر لگا لی جائے

اختلافات نہ بن جائیں تماشہ اے دوست

بیچ میں اب کوئی دیوار اٹھا لی جائے

ہر بات سے واقف میرے الزام سے واقف

 ہر بات سے واقف میرے الزام سے واقف

اک شہر محبت ہے مِرے نام سے واقف

ہیں شہر کی گلیوں میں کئی چاہنے والے

ہم لوگ  فقط تیرے در و بام سے واقف

اک جہد مسلسل ہے، اسے پا کے رہیں گے

صحرا سے نہ واقف، نہ کسی شام سے واقف

چاند سا چہرہ کچھ اتنا بے باک ہوا

 چاند سا چہرہ کچھ اتنا بے باک ہوا

ایک ہی پل میں شب کا دامن چاک ہوا

گھر کے اندر سیدھے سچے لوگ ملے

بیٹا پردیسی ہو کر چالاک ہوا

دروازوں کی راتیں چوکیدار ہوئیں

اور اجالا جسموں کی پوشاک ہوا

بہت کم وقت ہے دیکھو

 بہت کم وقت ہے دیکھو


مجھے تم سے محبت ہے

تمہارے گھر کے پھولوں سے گزر کر

مِرے کمرے کی کھلتی کھڑکیوں میں پیار کی مہکار بستی ہے

تمہارے بام سے ہو کر مِرے آنگن کی بیلوں پر

صبح سے شام تک چڑیوں کی اڑتی ڈار کی

Sunday 27 September 2020

ہم نہ بت خانے میں نے مسجد ویراں میں رہے

 ہم نہ بت خانے میں نے مسجد ویراں میں رہے

حسرت و آرزوئے جلوۂ جاناں میں رہے

خوں ہے وہ جس سے کہ ہو دامن قاتل رنگیں

خون فاسد ہے جو خالی سر مژگاں میں رہے

ہم نے مصنوع سے صانع کی حقیقت پائی

بے سبب ہم نہیں نظارۂ خوباں میں رہے

دور ہو درد دل یہ اور درد جگر کسی طرح

 دور ہو دردِ دل یہ اور دردِ جگر کسی طرح

آج تو ہمنشیں! اسے لا مِرے گھر کسی طرح

تیر مژہ ہو یار کا،۔ اور نشانہ دل مِرا 

تیر پہ تیر تا بہ کے کیجے حذر کسی طرح

نالہ ہو، یا کہ آہ ہو،۔ شام ہو، یا پگاہ ہو

دل میں بتوں کے ہائے ہائے کیجے اثر کسی طرح

یہ آئینہ بولنے لگا ہے

 آئینہ


یہ آئینہ بولنے لگا ہے

میں جب گزرتا ہوں سیڑھیوں سے

یہ باتیں کرتا ہے، آتے جاتے میں پوچھتا ہوں

کہاں گئی وہ پھتوئی تیری'

'یہ کوٹ نکٹائی تجھ پہ پھبتی نہیں، یہ مصنوعی لگ رہی ہے

تیرے اتارے ہوئے دن

 تیرے اتارے ہوئے دن

ٹنگے ہیں لان میں اب تک

نہ وہ پرانے ہوئے ہیں

نہ ان کا رنگ اترا کہیں سے

کہیں سے کوئی بھی سیون ابھی نہیں اُدھڑی

الائچی کے بہت پاس رکھے پتھر پر

ہم شہر کی دیواروں میں کھنچ آئے ہیں یارو

 ہم شہر کی دیواروں میں کھنچ آئے ہیں یارو

محسوس کیا تھا کہ ادھر سائے ہیں یارو

رہنے بھی دو، کیا پوچھ کے زخموں کا کرو گے

یہ زخم اگر تم نے نہیں کھائے ہیں یارو

چھیڑو کوئی بات ایسی کہ احساس کو بدلے

ہم آج ذرا گھر سے نکل آئے ہیں یارو

اب تو اپنے جسم کا سایہ بھی بیگانہ ہوا

 اب تو اپنے جسم کا سایہ بھی بے گانہ ہُوا

میں تِری محفل میں آ کر اور بھی تنہا ہوا

وقفِ دردِ جاں ہوا،۔ محوِ غمِ دنیا ہوا

دل عجب شے ہے کبھی قطرہ کبھی دریا ہوا

تیری آہٹ کے تعاقب میں ہوں صدیوں سے رواں

راستوں کے پیچ و خم میں ٹھوکریں کھاتا ہوا

تعلقات کے زخموں کا ہوں ستایا ہوا

 تعلقات کے زخموں کا ہوں ستایا ہوا

جو شام آئی مِرا سایہ بھی پرایا ہوا

مٹے گا ذہن سے کب تیری یاد کا افسوں

ہزار صدیوں سے یہ بوجھ ہے اٹھایا ہوا

وہ ایک شخص ابھی دل میں چھپ کے بیٹھا ہے

وہ شخص جو کبھی اپنا کبھی پرایا ہوا

مٹی ہو کر عشق کیا ہے اک دریا کی روانی سے

 مٹی ہو کر عشق کیا ہے اک دریا کی روانی سے

دیوار و در مانگ رہا ہوں میں بھی بہتے پانی سے

بے خبری میں ہونٹ دِیے کی لو کو چومنے والے تھے

وہ تو اچانک پھوٹ پڑی تھی خوشبو رات کی رانی سے

وہ مجبوری موت ہے جس میں کاسے کو بنیاد ملے

پیاس کی شدت جب بڑھتی ہے ڈر لگتا ہے پانی سے

خاک شفا

 خاکِ شفا


ماں یہ ہم سے کہتی تھی

حرمتِ شہیداں کا

قرض ہے زمینوں پر

خاک ان کے قدموں کی

آئی ہو جو مقتل سے

لوح ایام

 لوحِ ایام


آج کھولا جو اتفاقاً ہی

اپنے سامان میں رکھا اک بیگ

ڈھیر نکلا پرانی یادوں کا

اور یکدم چمک اٹھا ماضی

موم جامہ کیے ہوئے تعویذ

گر کوئی بات ہے تو کر مجھ سے

 گر کوئی بات ہے تو کر مجھ سے

یوں بنا بات کے نہ بھر مجھ سے

چھین لیتی ہوں میں ہنسی لب کی

میں محبت ہوں یار! ڈر مجھ سے

بات جو تھی، لبوں پہ آ ہی گئی

اب نہ یوں کر اگر، مگر مجھ سے

دنیا میں ایک شخص ہی میرے قرین ہے

 دنیا میں ایک شخص ہی میرے قرین ہے

برسوں ہوئے کہ وہ مِرے دل کا مکین ہے

اتنا حسین شخص ہے، اتنا حسین شخص 

اتنا کہ ہر حسین کہے، ہاں، حسین ہے

اس کے مجھے خلاف بھی کیسے کرو گے تم

مجھ کو تو خود سے بڑھ کے بھی اس پہ یقین ہے

کچھ اس طرح سے ملیں ہم کہ بات رہ جائے

 کچھ اس طرح سے ملیں ہم کہ بات رہ جائے

بچھڑ بھی جائیں تو ہاتھوں میں ہات رہ جائے

اب اس کے بعد کا موسم ہے سردیوں والا

تِرے بدن کا کوئی لمس سات رہ جائے

میں سو رہا ہوں تِرے خواب دیکھنے کے لیے

یہ آرزو ہے کہ آنکھوں میں رات رہ جائے

درد میں شدت احساس نہیں تھی پہلے

 درد میں شدت احساس نہیں تھی پہلے

زندگی رام کا بن باس نہیں تھی پہلے

ہم بھی سو جاتے تھے معصوم فرشتوں کی طرح

اور یہ رات بھی حساس نہیں تھی پہلے

ہم نے اس بار تجھے جسم سے ہٹ کر سوچا

شاعری روح کی عکاس نہیں تھی پہلے

تیرے خیال کی شمعیں جلائے بیٹھے ہیں

تیرے خیال کی شمعیں جلائے بیٹھے ہیں

درونِ جاں کوئی محفل سجائے بیٹھے ہیں

گلی سے آج کوئی ماہتاب گزرے گا

ستارے شام سے پلکیں بچھائے بیٹھے ہیں

انہی سے پوچھئے تفصیلِ وسعتِ صحرا

جو لوگ عشق میں دنیا لٹائے بیٹھے ہیں

سوز دل کیا ہے چشم نم کیا ہے

 سوزِ دل کیا ہے، چشمِ نم کیا ہے

جس پہ بیتے وہ جانے غم کیا ہے

کبھی دریا میں جو نہیں اترا

کیسے بتلائے، زیر و بم کیا ہے

زیست سے بڑھ کے تلخ و شیریں نہیں

قند کیا چیز ہے یہ سم کیا ہے

کھلونا تو نہیں ہوں میں

گڑیا


کھلونا تو نہیں ہوں میں

نا مٹی کا کوئی بت ہوں

کہ جب تم ہاتھ کو موڑو نہیں ہو گی مجھے تکلیف

کہ جب تم آنکھ کو پھوڑو تو چیخیں بھی نہ نکلیں گی

بنا سوچے

روتے روتے جو کبھی حرف دعا لکھتے ہیں

 روتے روتے جو کبھی حرفِ دعا لکھتے ہیں

ہم وہ مجبور کہ لوگوں کو خدا لکھتے ہیں

بھول جاتے ہیں وفاؤں کے پرانے رشتے

ہم وہ خودسر ہیں، محبت کو انا لکھتے ہیں

ہیر رانجھے  کی یا سسی کی کہانی سن لو

لکھنے والے تو اسے اب بھی سزا لکھتے ہیں

ہوائے مہر و محبت سواد جاں سے چلے

ہوائے مہر و محبت سوادِ جاں سے چلے

فصیلِ درد گرائے جہاں جہاں سے چلے

ہوا ہے شہر میں دستورِ مصلحت کا نفاذ

کوئی تو رسمِ جنوں بزمِ عاشقاں سے چلے

وصال و ہجر کے موسم گزر چکے ہیں سبھی

سو آج ہم بھی تِری بزمِ امتحاں سے چلے

کوئی دریا ہے نہ دیوار کھڑی ہے لیکن

 کوئی دریا ہے نہ دیوار کھڑی ہے لیکن

بیچ میں ایک صدی آن پڑی ہے لیکن

وہ جو کہتا ہے مجھے ہجر نہیں ہے لاحق

بات کچھ بھی یہ نہیں، بات بڑی ہے لیکن

آنکھ صحرا کی طرح خشک سہی اندر سے

سات ساون سے مسلسل ہی جھڑی ہے لیکن

باغ نے پہنا سرخ لبادہ کتنا زیادہ

 باغ نے پہنا سرخ لبادہ کتنا زیادہ

موسمِ دل سادے کا سادہ کتنا زیادہ

کوئی دو کے بیچ میں ہوتا تو یہ بتاتا

کس نے نبھایا اپنا وعدہ کتنا زیادہ

آدم کی مٹی سے نسبت بے حد کم ہے

کرسی میز کے ساتھ برادہ کتنا زیادہ

Saturday 26 September 2020

خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کچھ ایسا تھا

 خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کچھ ایسا تھا

میں تجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

ٹھہر کے سن تو سہی غم کی ڈوبتی آواز

پلٹ کے دیکھ تو لے، منظرِ شکستِ وفا

تو خواب تھا مجھے نیند سے جگایا کیوں

تو وہم تھا تو مرے ساتھ ساتھ کیوں نہ چلا

کچھ تو غم خانۂ ہستی میں اجالا ہوتا

 کچھ تو غم خانۂ ہستی میں اجالا ہوتا

چاند چمکا ہے تو احساس بھی چمکا ہوتا

آئینہ خانۂ عالم میں کھڑا سوچتا ہوں

میں نہ ہوتا تو یہاں کون سا چہرہ ہوتا

خود بھی گم ہو گئے ہم اپنی صداؤں کی طرح

دشت فرقت میں تجھے یوں نہ پکارا ہوتا

کیا طنبور کہے

 کافی


کیا طنبور کہے

مٹی کے اندھیاؤ اندر

کیا طنبور کہے

مٹی، پانی کا سیارہ

گونج رہا اکتارا

کیا کیا نور کہے

تیری زلفیں ترے رخسار ترے لب میرے

 تیری زلفیں، تِرے رخسار، ترے لب میرے

جتنے پہلو ہیں تِرے حسن کے وہ سب میرے

اس سے اب ترکِ محبت کا گِلہ کیا معنی؟

مجھ کو تسلیم کہ اطوار تھے بے ڈھب میرے

پھر وہی چاند سرِ شہر چڑھے تو اے کاش

اس سے روشن ہوں در و بام بس اک شب میرے

کیوں طبیعت کہیں ٹھہرتی نہیں

 کیوں طبیعت کہیں ٹھہرتی نہیں

دوستی تو اداس کرتی نہیں

ہم ہمیشہ کے سیر چشم سہی

تجھ کو دیکھیں تو آنکھ بھرتی نہیں

شبِ ہجراں بھی روزِ بد کی طرح

کٹ تو جاتی ہے پر گزرتی نہیں

حضور آپ اور نصف شب مرے مکان پر

 کنیز


حضور آپ اور نصف شب مِرے مکان پر

حضور کی تمام تر بلائیں میری جان پر

حضور خیریت تو ہے حضور کیوں خموش ہیں

حضور بولیے کہ وسوسے وبالِ ہوش ہیں

حضور، ہونٹ اس طرح کپکپا رہے ہیں کیوں

حضور آپ ہر قدم پہ لڑکھڑا رہے ہیں کیوں

اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں

 فلمی گیت


اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں

جس نے بھلا دیا تجھے، اس کا ہے انتظار کیوں

اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں

جس نے بھلا دیا تجھے، اس کا ہے انتظار کیوں


وہ نہ ملے گا اب تجھے جس کی تجھے تلاش ہے

راہوں میں آج بے کفن تیری وفا کی لاش ہے

میں نے ہر کانٹا تیری راہ کا پلکوں سے چنا

گیت


 میں نے ہر کانٹا تیری راہ کا پلکوں سے چنا

لوگ کہتے ہیں میں دشمن ہوں تیرا تُو نے سنا

میں نے ہر کانٹا تیری راہ کا پلکوں سے چنا

لوگ کہتے ہیں میں دشمن ہوں تیرا تُو نے سنا


جانے کیا سوچ کے ہر ظلم روا رکھا ہے

کیا میں پتھر ہوں جو قدموں میں سدا رکھا ہے

منہ چوم لوں میں ان کا بڑے احترام سے

 منہ چوم لوں میں ان کا بڑے احترام سے

جو لوگ مجھ کو چھیڑتے ہیں تیرے نام سے

اچھا، تم اس کے سائے میں بیٹھی تھیں ایک دن

یعنی یہ سبز پیڑ بھی جائے گا کام سے

محلوں میں اور ناز میں نخروں میں تُو پلی

تیرا ہو کیا مقابلہ، وہ بھی غلام سے

چٹان میں تیری صورت بنایا کرتا تھا

 چٹان میں تیری صورت بنایا کرتا تھا

میں پتھروں کو محبت سکھایا کرتا تھا

جو پھول دیتا اسے شکریے کا خط لکھتا

جو جان دیتا میں قیمت چکایا کرتا تھا

وبا نے مجھ سے مِرا جادو چھین رکھا ہے

میں روتے لوگوں کو چھو کر ہنسایا کرتا تھا

کل کے جلوسیوں کے عجب رنگ ڈھنگ تھے

 کل کے جلوسیوں کے عجب رنگ ڈھنگ تھے

منہ میں تھا کف بھرا ہوا ہاتھوں میں سنگ تھے

بپھرے ہوئے ہجوم کو ان کی تلاش تھی

جن کے وجود باعثِ افلاس و ننگ تھے

محنت کشوں کے سرخ پھریروں کو دیکھ کر

شہزادگانِ شہر سبھی زرد رنگ تھے

شاید بڑھیں گی اور بھی میری مصیبتیں

 قطعہ


شاید بڑھیں گی اور بھی میری مصیبتیں

پھر بحث میرے گھر میں ہے املی کی چاٹ پر

ہتھیا لیا اسی کو وکیلوں نے فیس میں

تفریق بھائیوں میں پڑی جس پلاٹ پر


تنویر سپرا

میں زیر کر رہا ہوں ابھی اپنے بخت کو

 قطعہ

لہجہ نہ دیکھ بات کا مفہوم بھی سمجھ

سن لے ذرا ٹھہر کے صدائے کرخت کو

دنیا نے آسمان کو نرغے میں لے لیا

میں زیر کر رہا ہوں ابھی اپنے بخت کو


تنویر سپرا

اور آہستہ کیجیے باتیں دھڑکنیں کوئی سن رہا ہو گا

گیت


 اور آہستہ کیجیۓ باتیں

دھڑکنیں کوئی سن رہا ہو گا

لفظ گرنے نہ پائے ہونٹوں سے

وقت کے ہاتھ ان کو چن لیں گے

کان رکھتے ہیں یہ در و دیوار

راز کی ساری بات سن لیں گے

ہاتھ چلانا مشکل ہے ان موجوں کی طغیانی میں

 ہاتھ چلانا مشکل ہے ان موجوں کی طغیانی میں

تم نے چھوڑ دیا لے جا کر کتنے گہرے پانی میں

جانے یہ احساس نگر میں کیسا موسم اترا ہے

برف جمی ہے آگ کے اندر، آگ لگی ہے پانی میں

وہ جو اک کردار کیا تھا حسن کی تابعداری کا

اس کردار نے ڈال دیا ہے کتنا درد کہانی میں

حور مثال سراپا تیرا چہرے کی تابانی تیری

 حور مثال سراپا تیرا، چہرے کی تابانی تیری

دل کے تار ہلا دیتی ہے مست الست جوانی تیری

کیسے بوسہ ثبت کرے کوئی کیسے کوئی رکھے ہاتھ

آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے نور بھری پیشانی تیری

فطرت میں کچھ حسن نہیں ہے تیرے خدوخال سے بڑھ کر

سانسیں جامد کر دیتی ہے، سانسوں کی طغیانی تیری

تیرے ہونے کا یقیں تجھ کو دلایا تھا کبھی

 تیرے ہونے کا یقیں تجھ کو دلایا تھا کبھی

میں نے اے شخص تجھے جینا سکھایا تھا کبھی

آخر اک روز مجھے تجھ سے نکلنا تھا کہ میں

وہم کی طرح تِرے ذہن میں آیا تھا کبھی

تجھ سے تعبیر نہیں مانگی، مگر یاد تو کر

تُو نے ان آنکھوں کو اک خواب دکھایا تھا کبھی

تم کو بھلا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے

 تم کو بھلا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے

میں زہر کھا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے

کل میری ایک پیاری سہیلی کتاب میں

اک خط چھپا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے

اس وقت رات رانی مِرے سونے صحن میں

خوشبو لٹا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے

ابر اترا ہے چار سو دیکھو

 ابر اترا ہے چار سُو دیکھو

اب وہ نکھرے گا خوبرو دیکھو

سرخ اینٹوں پہ ناچتی بارش

اور یادیں ہیں روبرو دیکھو

پیڑ سمٹے ہیں ٹہنیاں اوڑھے

باد و باراں ہے تند خو دیکھو

یاد کر کر کے اسے وقت گزارا جائے

 یاد کر کر کے اسے وقت گزارا جائے

کس کو فرصت ہے وہاں کون دوبارہ جائے

شک سا ہوتا ہے ہر اک پہ کہ کہیں تُو ہی نہ ہو

اب تِرے نام سے کس کس کو پکارا جائے

تجھ کو بہت یاد ہیں اس کی باتیں

کیوں نہ کچھ وقت تِرے ساتھ گزارا جائے

کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے

 کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے

اب تو کچھ فیصلہ کر جانے کو جی چاہے ہے

لوگ اپنے در و دیوار سے ہوشیار رہیں

آج دیوانے کا گھر جانے کو جی چاہے ہے

درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے

زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے

حضرت شیخ جو پکڑے گئے میخانے میں

 حضرتِ شیخ جو پکڑے گئے مے خانے میں

وردِ لاحول تھا، تسبیح کے ہر اک دانے میں

نازنینوں کی پریشانی پہ واعظ بولے

ہم تو تسکین کو آئے ہیں پری خانے میں

پارساؤں نے بھرم رکھ لیا مے خانے کا

پی گئے پھونک کے دم، کانچ کے پیمانے میں

تم سے انداز شکایت جدا رکھا ہے

 تم سے اندازِ شکایت جدا رکھا ہے

ہم نے انصاف قیامت پہ اٹھا رکھا ہے

لاکھ طوفان آئے بگولے ناچے

تیری یاد کا دیا پھر بھی جلا رکھا ہے

یہ بھرا شہر ہے میرے لیے صحرا کی طرح

اب تیرے بعد تیرے شہر میں کیا رکھا ہے

نیلی بارش تیری آنکھوں میں

 نیلی بارش


نیلی بارش تیری آنکھوں میں

جیسے یہ منظر

پہلے بھی دیکھا ہو میں نے

آئینے کے دل میں یا پھراس دروازے میں

جو کالی مٹی کے پاتال میں کھلتا ہے

راز میں رکھ تری رسوائی کا قصہ میں ہوں

 راز میں رکھ تِری رسوائی کا قصہ میں ہوں

مجھ کو پہچان تِرا دوسرا چہرہ میں ہوں

دفن ہیں تیرے کئی راز مِرے سینے میں

جو ترے گھر سے گزرتا ہے وہ رستہ میں ہوں

مدتوں بعد بھی جاری ہے عذابوں کا سفر

قطرہ قطرہ تِری آنکھوں سے ٹپکتا میں ہوں

اب اور چلنے کا اس دل میں حوصلہ ہی نہ تھا

 اب اور چلنے کا اس دل میں حوصلہ ہی نہ تھا

کہ شہرِ شب میں اجالے کا شائبہ ہی نہ تھا

میں اس گلی میں گیا لے کے زعمِ رسوائی

مگر مجھے تو وہاں کوئی جانتا ہی نہ تھا

گدازِ جاں سے لیا میں نے پھر غزل کا سراغ

کہ یہ چراغ تو جیسے کبھی بجھا ہی نہ تھا

درد ایسا دیا احساس وفا نے ہم کو

 درد ایسا دیا احساسِ وفا نے ہم کو 

نہ دوا نے ہی شفا دی نہ دعا نے ہم کو 

یہ تو صحرا کی ہوائیں ہیں گلہ کیا ان کا 

خوب جھلسایا ہے گلشن کی صبا نے ہم کو 

سوزِ آفاق کا احساس بھی ہم کو نہ ہوا 

اتنا بے ہوش کیا تیری ادا نے ہم کو 

گھر اپنا وادی برق و شرر میں رکھا جائے

 گھر اپنا وادئ برق و شرر میں رکھا جائے 

تعلقات کا سودا نہ سر میں رکھا جائے 

اگر طلب ہو کبھی چند گھونٹ پانی کی 

سمندروں کا تصور نظر میں رکھا جائے 

سنا ہے دختر تہذیب گھر سے بھاگ گئی 

چھپا کے بچوں کو ہرگز نہ گھر میں رکھا جائے 

میرے غم پر گمان غم ہی نہیں

 میرے غم پر، گمانِ غم ہی نہیں

اس کو لگتا ہے آنکھ، نم ہی نہیں

کیسے روکوں میں، خود کو جانے سے

ہاتھ شل، بازوؤں میں، دم ہی نہیں

راستے ذات کے بھی ٹیڑھے ہیں

راہگزر، تیرے پیچ و خم ہی نہیں

ہمارے دل میں جو آتش فشاں ہے

 ہمارے دل میں جو آتش فشاں ہے

جہنم میں بھی وہ گرمی کہاں ہے

میں اپنی حد میں داخل ہو رہا ہوں

مِرے قدموں کے نیچے آسماں ہے

بہت دن سے پڑی ہیں خشک آنکھیں

مگر سینے میں اک دریا رواں ہے

Friday 25 September 2020

زوال کی کھوج

  Detection of fall 

 زوال کی کھوج 


بے حجاب اور بے باک علامتیں

حاملہ ہیں

برہنگی ابہام نہیں

بے چہرہ تہذیب کال کوٹھڑی میں آخری سانسیں لے رہی ہے

پیار کا یہ سلسلہ ہی چھوڑ دو

 پیار کا یہ سلسلہ ہی چھوڑ دو

ہر کسی سے رابطہ ہی چھوڑ دو

پاس وہ آئے کہ میں جاؤں قریب

وصل کا یہ مرحلہ ہی چھوڑ دو

آنے جانے سے بڑھے گی دشمنی

یہ گلی، یہ راستہ ہی چھوڑ دو

اشک آنکھوں میں بھر نہیں سکتے

 اشک آنکھوں میں بھر نہیں سکتے

اس گلی سے گزر نہیں سکتے

جن کی فطرت ہو دل لگی کرنا

وہ محبت تو کر نہیں سکتے

اس میں سارا قصور میرا ہے

اس پہ الزام دھر نہیں سکتے

مت سمجھو کہ ہجرت کے طلسمات میں گم ہیں

 مت سمجھو کہ ہجرت کے طلسمات میں گم ہیں

ہم لوگ وفاؤں کے تضادات میں گم ہیں

رستوں میں نہیں سات سمندر کی یہ دوری

یہ سات سمندر تو مری ذات میں گم ہیں

بنا کے پھر مجھے تازہ خبر نہ جاؤ تم

 بنا کے پھر مجھے تازہ خبر نہ جاؤ تم

اب آ گئے ہو تو پھر چھوڑ کر نہ جاؤ تم

میں ڈرتے ڈرتے سناتا ہوں اپنے اندیشے

میں کھل کے یوں نہیں کہتا کہ ڈر نہ جاؤ تم

کہاں کہاں مجھے ڈھونڈو گے پرزہ پرزہ ہوں

مجھے سمیٹنے والے، بکھر نہ جاؤ تم

خوش جب دل کا کونا کونا ہوتا ہے

 خوش جب دل کا کونا کونا ہوتا ہے

دکھ بھی ساتھ میں آدھا پونا ہوتا

جانے ایسا کیوں ہے ہنس دینے کے بعد

میں نے تو ہر بار ہی رونا ہوتا ہے

دکھ کو کیسے سمجھاؤں بے چین نہ کر

اتنی مشکل سے تو سونا ہوتا ہے

یہ لوگ ٹوٹنے والوں کو اور توڑتے ہیں

 یہ لوگ ٹوٹنے والوں کو اور توڑتے ہیں

یہ ایک دوسرے کی گردنیں مروڑتے ہیں

میں چھوڑ دینے کی قائل نہیں تھی پھر اک دن

مجھے کسی نے بتایا کہ ایسے چھوڑتے ہیں

میں چاہتی ہی نہیں تھی، مگر یہ جانتی تھی

کہ جانے والے کو رستے سے کیسے موڑتے ہیں

جو کنویں سے نکل نہیں پایا

 جو کنویں سے نکل نہیں پایا

اس کا منظر بدل نہیں پایا

درد آنکھوں میں بھر گیا سارا

جب یہ لفظوں میں ڈھل نہیں پایا

پاؤں اپنے جمائے پانی پر

میرا دل پر سنبھل نہیں پایا

تاروں بھرا فلک ہے بچھونا تو ہے نہیں

 تاروں بھرا فلک ہے بچھونا تو ہے نہیں

اس چاندنی کے تخت پر سونا تو ہے نہیں

آنسو گریں جو سنگ پہ رستہ بنائیں گے

پتھر کی آنکھ سے کبھی رونا تو ہے نہیں

چاروں طرف میں اس کے قدم ڈھونڈتی رہی

اس گھر میں کوئی پانچواں کونا تو ہے نہیں

چشم تر یوں بھگو گئی مجھ کو

 چشمِ تر یوں بھگو گئی مجھ کو

میں کہ میلا تھا، دھو گئی مجھ کو

یوں بھی عادت تھی رتجگوں کی مجھے

پھر محبت بھی ہو گئی مجھ کو

موت کس بات سے ڈراتی ہے

زندگی مار تو گئی مجھ کو

تمہارے سامنے ممکن ہے ہم برے ٹھہریں

 تمہارے سامنے ممکن ہے ہم برے ٹھہریں

کہ شہرِ سنگ میں کیسے یہ آئینے ٹھہریں

وہ گل بدن جو چلے، راستے نکھر جائیں

وہ چشمِ مست رکے اور میکدے ٹھہریں

یہ باغ عشق ہے، موسم بغیر سبز رہے

خزاں بھی طاری رہے، پیڑ بھی ہرے ٹھہریں

وقت سے کھینچ کے رفتار الگ رکھی ہے

 صورت گردشِ پرکار الگ رکھی ہے

وقت سے کھینچ کے رفتار الگ رکھی ہے

اپنے سائے سے الگ رکھا ہے سایہ اپنا

اپنی دیوار سے دیوار الگ رکھی ہے

اپنے کس کام کی، لے جاؤ اٹھا کر اس کو

وہ محبت کہ جو بے کار الگ رکھی ہے

کچھ یقیں سا گمان سا کچھ ہے

 کچھ یقیں سا، گمان سا کچھ ہے

جو بھی ہے میری جان سا کچھ ہے

ہاتھ میں ہے مہارِ ناقۂ خاک

سر پہ اک سائبان سا کچھ ہے

فاصلے ختم ہو گئے، لیکن

پھر بھی اک درمیان سا کچھ ہے

اچانک چھوڑ جاؤں گا

 اچانک چھوڑ جانے کا

جو فن تم نے سکھایا تھا

اسے اب آزمانے کا 

سمے نزدیک آیا ہے

مِرے چاروں طرف مجھ سے

محبت کرنے والوں کا 

خدا نصیب کرے جس کو صحبتیں میری

 خدا نصیب کرے جس کو صحبتیں میری 

نہ بھول پائے کبھی وہ حکایتیں میری 

کہاں گئے مِری مصروف ساعتوں کے رفیق 

صدائیں دیتی ہیں اب ان کو فرصتیں میری 

تمام شہر گریزاں ہے آج کل جیسے 

کسی کے نام نہ لگ جائیں تہمتیں میری 

راز دنیا پر کھلا ہے یہ ترے قتل کے بعد

 تیرے قتل کے بعد


راز دنیا پر کھلا ہے یہ تِرے قتل کے بعد

لوگ مر کے بھی رہا کرتے ہیں زندہ کیسے

کون کتنا ہے تِرے قتل کی سازش میں شریک

اک نہ اک روز نقاب اٹھے گا ہر چہرے سے

شہر تو محوِ مناجات و دعا تھا، پوچھو

حاکمِ شہر نے وہ رات گزاری تھی کیسے؟

پھول کی حکایت

 پھول کی حکایت


بس اتنا یاد ہے

سرخ پنکھڑیوں والا ایک پھول تھا

جو دھول بھرے سمندر سے گزرتے ہوئے گم ہوا

اے خوب صورت آنکھوں والی لڑکی

قریب آ

کس کی خوں رنگ قبا آتی ہے

 کس کی خوں رنگ قبا آتی ہے

روشنی اب کے سوا آتی ہے

ساعتِ علم و خبر سے پہلے

منزلِ کرب و بلا آتی ہے

روزِ پیکار و جدل ختم ہوا

شبِ تسلیم و رضا آتی ہے

ساون رت اور اڑتی پروا تیرے نام

 ساون رُت اور اڑتی پُروا تیرے نام

دھوپ نگر سے ہے یہ تحفہ تیرے نام

سرخ گلاب کے سارے موسم تیرے لیے

خوابوں کا ہر ایک دریچہ تیرے نام

چاند کی آنکھیں پھول کی خوشبو بہتی رات

قُربت کا ہر ایک وسیلہ تیرے نام

سلسلہ رنگوں کا خوشبو کا سفر اچھا لگا

 سلسلہ رنگوں کا خوشبو کا سفر اچھا لگا

مدتوں کے بعد جب لوٹے تو گھر اچھا لگا

جانے کیسا درد تھا جس کی اذیت میں مجھے

سوچ میں ڈوبا ہوا بوڑھا شجر اچھا لگا

ہر کوئی جب محو تھا رنگینئ ماحول میں

آس کے پنچھی کو یادوں کا نگر اچھا لگا

محبت سے مکر جانا ضروری ہو گیا تھا

 محبت سے مُکر جانا ضروری ہو گیا تھا

پلٹ کے اپنے گھر جانا ضروری ہو گیا تھا

نظر انداز کرنے کی سزا دینی تھی تجھ کو

تیرے دل میں اتر جانا ضروری ہو گیا تھا

میں سناٹے کے جنگل سے بہت تنگ آ گئی تھی

کسی آواز پر جانا ضروری ہو گیا تھا

وقت ایسا کوئی تجھ پر آئے

 وقت ایسا کوئی تجھ پر آئے

خشک آنکھوں میں سمندر آئے

میرے آنگن میں نہیں تھی بیری

پھر بھی ہر سمت سے پتھر آئے

راستہ دیکھ نہ گوری اس کا

کب کوئی شہر میں جا کر آئے

وہ سر پھری ہوا تھی سنبھلنا پڑا مجھے

 وہ سرپھری ہوا تھی سنبھلنا پڑا مجھے

میں آخری چراغ تھا جلنا پڑا مجھے

محسوس کر رہا تھا اسے اپنے آس پاس

اپنا خیال خود ہی بدلنا پڑا مجھے

سورج نے چھپتے چھپتے اجاگر کیا تو تھا

لیکن تمام رات پگھلنا پڑا مجھے

وہ شہد سے میٹھا تھا کہ پھولوں سے حسیں تھا

 وہ شہد سے میٹھا تھا کہ پھولوں سے حسیں تھا

تھا جو بھی، مجھے کیا، جو مقدر میں نہیں تھا

اک طنز کی تلوار تھا وہ شوخ و طرحدار

اس شاخِ ثمر بار میں اک سانپ مکیں تھا

وہ وقت بھی گزرا ہے تِرے عشق میں مجھ پر

جب تیرے مقابل میں نہ دنیا تھی نہ دِیں تھا

زخم مہکے نہ کوئی رنگ طبعیت لائی

 زخم مہکے نہ کوئی رنگ طبعیت لائی

زندگی مجھ کو عبث کوئے ملامت لائی

اس کو مدت سے کوئی قیس نہیں ملتا تھا

میری دہلیز پہ صحرا کو ضرورت لائی

میں سمجھتا تھا کرے گی وہ تمہاری باتیں

خلقتِ شہر کوئی اور شکایت لائی

رک گیا آنکھ سے بہتا ہوا دریا کیسے

 رک گیا آنکھ سے بہتا ہوا دریا کیسے

غم کا طوفاں تو بہت تیز تھا، ٹھہرا کیسے

ہر گھڑی تیرے خیالوں میں گھِرا رہتا ہوں

ملنا چاہوں تو ملوں خود سے میں تنہا کیسے

مجھ سے جب ترکِ تعلق کا کیا عہد تو پھر

مڑ کے میری ہی طرف آپ نے دیکھا کیسے

جب تصور میں کوئی ماہ جبیں ہوتا ہے

 جب تصور میں کوئی ماہ جبیں ہوتا ہے

رات ہوتی ہے مگر دن کا یقیں ہوتا ہے

اف وہ بے داد عنایت بھی تصدق جس پر

ہائے وہ غم جو مسرت سے حسیں ہوتا ہے

ہجر کی رات فسوں کارئ ظلمت مت پوچھ

شمع جلتی ہے مگر نور نہیں ہوتا ہے

نگاہوں سے شرح حکایات ہو گی

 نگاہوں سے شرح حکایات ہو گی

زباں چپ رہے گی مگر بات ہو گی

مِرے اشک جس شب کے دامن میں ہونگے

یقیناً وہ تاروں بھری رات ہو گی

سمجھتی ہے شام و سحر جس کو دنیا

تِرے زلف و عارض کی خیرات ہو گی

نہ وہ اقرار کرتا ہے نہ وہ انکار کرتا ہے

 نہ وہ اقرار کرتا ہے، نہ وہ انکار کرتا ہے

ہمیں پھر بھی گماں ہے وہ ہمیں سے پیار کرتا ہے

میں اسکے کس ستم کی سرخیاں اخبار میں دیکھوں

وہ ظالم ہے، مگر ہر ظلم سے انکار کرتا ہے

منڈیروں سے کوئی مانوس سی آواز آتی ہے

کوئی تو یاد ہم کو بھی پس دیوار کرتا ہے

جو لمحہ رائگاں گزرا وہی تو کام کا تھا​

 جو لمحہ رائیگاں گزرا وہی تو کام کا تھا​

بہر نفس یہ زیاں عمرِ ناتمام کا تھا​

یہ کیا ہوا کہ بھرے آسماں کے آنگن میں ​

بچھڑ گیا جو ستارہ ہمارے نام کا تھا​

بڑھا کے اس سے رہ و رسم اب یہ سوچتے ہیں​

وہی بہت تھا جو رشتہ دعا سلام کا تھا​

دعا کرو کہ کوئی پیاس نذر جام نہ ہو

 دعا کرو کہ کوئی پیاس نذر جام نہ ہو

وہ زندگی ہی نہیں ہے جو ناتمام نہ ہو

جو مجھ میں تجھ میں چلا آ رہا ہے صدیوں سے

کہیں حیات اسی فاصلے کا نام نہ ہو

کوئی چراغ نہ آنسو نہ آرزوئے سحر

خدا کرے کہ کسی گھر میں ایسی شام نہ ہو

کچھ لگی دل کی بجھا لوں تو چلے جائیے گا

 کچھ لگی دل کی بجھا لوں تو چلے جائیے گا

خیر سینے سے لگا لوں تو چلے جائیے گا

میں زخود رفتہ ہوا سنتے ہی جانے کی خبر

پہلے میں آپ میں آ لوں تو چلے جائیے گا

راستہ گھیرے ہیں ارمان و قلق حسرت و یاس

میں ذرا بھیڑ ہٹا لوں تو چلے جائیے گا

کبھی آنسو کبھی خوشبو کبھی نغمہ بن کر

 کبھی آنسو کبھی خوشبو کبھی نغمہ بن کر

ہم سے ہر شام ملی ہے تیرا چہرہ بن کر

چاند نکلا ہے تیری آنکھ کے آنسو کی طرح

پھول مہکے ہیں تیری زلف کا سایہ بن کر

میری جاگی ہوئی راتوں کو اسی کی ہے تلاش

سو رہا ہے میری آنکھوں میں جو سپنا بن کر

کہیں بھی سایہ نہیں کس طرف چلے کوئی

 کہیں بھی سایہ نہیں کس طرف چلے کوئی

درخت کاٹ گیا ہے ہرے بھرے کوئی

عجیب رُت ہے زباں ذائقے سے ہے محروم

تمام شہر ہی چپ ہو تو کیا کرے کوئی

ہمارے شہر میں ہے وہ گریز کا عالم

چراغ بھی نہ جلائے چراغ سے کوئی

وہ دکھ جو سوئے ہوئے ہیں انہیں جگا دوں گا

 وہ دکھ جو سوئے ہوئے ہیں انہیں جگا دوں گا

میں آنسوؤں سے ہمیشہ تِرا پتا دوں گا

بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی

میں اس بہار میں یہ راکھ بھی اڑا دوں گا

ہوا ہے تیز، مگر اپنا دل نہ میلا کر

میں اس ہوا میں تجھے دور تک صدا دوں گا

خود کو اتنا بھی مت بچایا کر

 خود کو اتنا بھی مت بچایا کر

بارشیں ہوں تو بھیگ جایا کر

کام لے کچھ حسین ہونٹوں سے

باتوں باتوں میں مسکرایا کر

چاند لا کر کوئی نہیں دے گا

اپنے چہرے سے جگمگایا کر

ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کے لئے

 ہر گھڑی چشمِ خریدار میں رہنے کے لیے

کچھ ہنر چاہئے بازار میں رہنے کے لیے

میں نے دیکھا ہے جو مردوں کی طرح رہتے تھے

مسخرے بن گئے دربار میں رہنے کے لیے

ایسی مجبوری نہیں ہے کہ چلوں میں پیدل

خود کو گرماتا ہوں رفتار میں رہنے کے لیے

مجھ سے مخلص تھا نہ واقف مرے جذبات سے تھ

 مجھ سے مخلص تھا نہ واقف مِرے جذبات سے تھا

اس کا رشتہ تو فقط اپنے مفادات سے تھا

اب جو بچھڑا ہے تو کیا روئیں جدائی پہ تری

یہی اندیشہ ہمیں پہلی ملاقات سے تھا

دل کے بجھنے کا ہواؤں سے گلا کیا کرنا

یہ دِیا نزع کے عالم میں تو کل رات سے تھا

وہ پیکرِ جمال ہے کمال ہے

 وہ پیکرِِ جمال ہے، کمال ہے

وہ حسن بے مثال ہے، کمال ہے

وہ پوچھتے ہیں آپ کیوں بدل گئے

یہی مِرا سوال ہے، کمال ہے

مجھے حرام ہے شراب کا نشہ

تمہیں لہو حلال ہے، کمال ہے

خیال یار کو من میں بٹھا کے چائے پی

 خیالِ یار کو من میں بٹھا کے چائے پی

ذرا سا روئے، ذرا مسکرا کے چائے پی

یہ دونوں ذائقے چکھے تھے ایک ٹیبل پر

رُلایا پہلے اسے، پھر ہنسا کے چائے پی

کسی کا خوں تو نہیں پیتے، چائے پیتے ہیں

ہمارے ساتھ کبھی بیٹھ، آ کے چائے☕ پی

Thursday 24 September 2020

محبت ناز ہے یہ ناز کب ہر دل سے اٹھتا ہے

 محبت ناز ہے یہ ناز کب ہر دل سے اٹھتا ہے

یہ وہ سنگِ گراں ہے جو بڑی مشکل سے اٹھتا ہے

لگی میں عشق کی، شعلہ کوئی مشکل سے اٹھتا ہے

جلن رہتی ہے آنکھوں میں، دھواں سا دل میں اٹھتا ہے

تِری نظروں سے گر کر جب کوئی محفل سے اٹھتا ہے

بڑی دقت، بڑی زحمت، بڑی مشکل سے اٹھتا ہے

خون کے گھونٹ بلا نوش پیے جاتے ہیں

 خون کے گھونٹ بلا نوش پیے جاتے ہیں

خیر ساقی کی مناتے ہیں، جیے جاتے ہیں

ایک تو درد ملا، اس پہ یہ شاہانہ مزاج

ہم غریبوں کو بھی کیا تحفے دئیے جاتے ہیں

آگ بجھ جائے، مگر پیاس بجھائے نہ بجھے

پیاس ہے یا کوئی ہوکا، کہ پیے جاتے ہیں

خودکشی کا فرشتہ سارا شگفتہ کے واسطے

 خودکشی کا فرشتہ


نوحہ؛ سارا شگفتہ کے واسطے


انجن کے ماتھے کا سورج

ایک بدن کے لاکھوں ٹکڑے

ہر ٹکڑے میں اک سیارہ

سیارے کے دل میں سارا

اپنی آنکھیں بند کر لو اور میرے ساتھ آؤ

 سادھ بیلا 


اپنی آنکھیں بند کر لو اور میرے ساتھ آؤ

ایک دریا، ایک کشتی 

ایک کشتی، دو مسافر 

دو مسافر، ایک جزیرہ 

ایک جزیرہ اور چاروں سمت پانی 

ایک راجہ، ایک رانی

نہ ذکر گل کا کہیں ہے نہ ماہتاب کا ہے

 نہ ذکر گل کا کہیں ہے نہ ماہتاب کا ہے 

تمام شہر میں چر چا تِرے شاب کا ہے

شراب اپنی جگہ چاندنی ہے اپنی جگہ

مگر جواب ہی کیا حس بے نقاب کا ہے

ہوئے ہیں ناگہاں بسمل شریک بزم جو سب

قصور کچھ ہے تِرا کچھ تِرے نقاب کا ہے

دل تو پتھر ہوئے غم پھر بھی کسک دیتے ہیں

 دل تو پتھر ہوئے، غم پھر بھی کسک دیتے ہیں

آگ اتنی ہو تو پتھر بھی چمک دیتے ہیں

خاک گرتی ہے جو سر پر غمِ دنیا کی کبھی

نام لے کر تِرا ہولے سے جھٹک دیتے ہیں

زندگی جب بھی نظر آتی ہے عریاں اپنی

ہم تِرے درد کی پوشاک سے ڈھک دیتے ہیں

کتنی بے نور تھی دن بھر نظر پروانہ

 کتنی بے نور تھی دن بھر نظرِ پروانہ

رات آئی تو ہوئی ہے سحر پروانہ

شمع جلتے ہی یہاں حشر کا منظر ہو گا

پھر کوئی پا نہ سکے گا خبر پروانہ

بجھ گئی شمع کٹی رات گئی سب محفل

اب اکیلے ہی کٹے گا سفر پروانہ

جب تک سفید آندھی کے جھونکے چلے نہ تھے

 جب تک سفید آندھی کے جھونکے چلے نہ تھے

اتنے گھنے درختوں سے پتے گرے نہ تھے

اظہار پر تو پہلے بھی پابندیاں نہ تھیں

لیکن بڑوں کے سامنے ہم بولتے نہ تھے

ان کے بھی اپنے خواب تھے اپنی ضرورتیں

ہمسائے کا مگر وہ گلا کاٹتے نہ تھے

مجھے تو یہ بھی فریب حواس لگتا ہے

 مجھے تو یہ بھی فریبِ حواس لگتا ہے

وگرنہ کون اندھیروں میں ساتھ چلتا ہے

بکھر چکی جرسِ کاروانِ گل کی صدا

اب اس کے بعد تو واماندگی کا وقفہ ہے

جو سوچیے تو سبھی کارواں میں شامل ہیں 

جو دیکھیے تو سفر میں ہر ایک تنہا ہے

زمیں جیسے کہ آتش فشاں کو ساتھ لئے

 زمیں جیسے کہ آتش فشاں کو ساتھ لیے 

یوں جی رہا ہوں میں دردِ نہاں کو ساتھ لیے 

ہُوا شکار سیاست کا اب کے موسم بھی 

بہار آئی ہے، لیکن خزاں کو ساتھ لیے 

رُکو تو یوں کہ ٹھہر جائے گردشِ دوراں 

چلو تو ایسے کہ سارے جہاں کو ساتھ لیے 

دو دو گھونٹ ہی پی کر دیکھو

 دو دو گھونٹ ہی پی کر دیکھو

تھوڑی دیر تو جی کر دیکھو

سب کچھ دل میں ہی نہ رکھو

بات کوئی پوری کر دیکھو

مے خانے سے ڈرنے والو

زہر پیالہ پی کر دیکھو

یہ غم نہ دے کہ مجھ سے بھلایا نہ جائے گا

 یہ غم نہ دے کہ مجھ سے بھلایا نہ جائے گا

پِھر دل کسی بھی دل سے لگایا نہ جائے گا

روشن ہوئے چراغ تو دیوار گر پڑی

اب گھر کا کوئی راز چھپایا نہ جائے گا

دیکھا اسے تو دل نے مجھے روک کر کہا

ان پتھروں سے ہاتھ ملایا نہ جائے گا

زہر دے دے نہ کوئی گھول کے پیمانے میں

 زہر دے دے نہ کوئی گھول کے پیمانے میں

اب تو جی ڈرتا ہے خود اپنے ہی میخانے میں

جامِ جم سے نگہِ توبہ شکن تک، ساقی

پوری روداد ہے ٹوٹے ہوئے پیمانے میں

سارا ماضی میری آنکھوں میں سمٹ آیا ہے

میں نے کچھ شہر بسا رکھے ہیں ویرانے میں

تری نگاہ پہ قائم ہے زندگی کا نظام

 اٹھے تو صبحِ درخشاں، جھکے تو ظلمتِ شام

تِری نگاہ پہ قائم ہے زندگی کا نظام

یہ خم بہ خم تِرے گیسو یہ کافرانہ خرام

ز فرق تا بقدم شعرِ حافظ و خیام

تِری جبیں پہ طلوعِ سحر کی پہلی کرن

تِرے لبوں پہ بہاروں کا اولیں پیغام

ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے

 ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے

اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے

اب غم زیست سے گھبرا کے کہاں جائیں گے

عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے

رات کے بعد سحر ہو گی مگر کس کے لیے

ہم ہی شاید نہ رہیں رات کے ڈھلتے ڈھلتے

فقیہ شہر کی مجلس سے کچھ بھلا نہ ہوا

 فقیہہ شہر کی مجلس سے کچھ بھلا نہ ہوا

کہ اس سے مل کے مزاج اور کافرانہ ہوا

ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں

ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا

وہ رات بھول چکو وہ سخن نہ دہراؤ

وہ رات خواب ہوئی وہ سخن فسانہ ہوا

لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں

 کیا پوچھتے ہو تیرے ہجر میں کیا سوچتے ہیں

سجا کے تم کو نگاہوں میں سدا سوچتے ہیں

تیرے وجود کو چھو کر جو گزری ہے کبھی

ہم اس ہوا کو بھی جنت کی ہوا سوچتے ہیں

یہ اپنے ظرف کی حد ہے کے فقط تیرا لحاظ

تیرے ستم کو مقدر کا لکھا سوچتے ہیں

جاؤ اب دشت ہی تعزیر تمہارے لیے ہے

 جاؤ اب دشت ہی تعزیر تمہارے لیے ہے

پھر نہ کہنا کوئی زنجیر تمہارے لیے ہے

اپنے ہی دستِ تہی ظرف نے مارا تم کو

اب بکھر جانا ہی اکسیر تمہارے لیے ہے

آخرِ شب تمہیں آنکھوں کا بھرم کھونا تھا

اب کوئی خواب نہ تعبیر تمہارے لیے ہے

جب بال و پر نہیں ہیں تو ہوا پر نہ جائیے

 جب بال و پر نہیں ہیں تو ہوا پر نہ جائیے

آندھی میں سیر ارض و سما پر نہ جائیے

کیا شاندار لوگ ہیں دامن دریدہ لوگ

دل دیکھئے حضور، قبا پر نہ جائیے

کیجے نہ ریگزار میں پھولوں کا انتظار

مٹی ہے اصل چیز، گھٹا پر نہ جائیے

Wednesday 23 September 2020

تو نے دیوانہ بنایا تو میں دیوانہ بنا

 تُو نے دیوانہ بنایا تو میں دیوانہ بنا

اب مجھے ہوش کی دنیا میں تماشا نہ بنا

یوسفِ مصرِ تمنا تیرے جلوؤں کے نثار

میری بیداریوں کو خوابِ زلیخا نہ بنا

ذوقِ بربادئ دل کو بھی نہ کر تُو برباد

دل کی اجڑی ہوئی بگڑی ہوئی دنیا نہ بنا

تمنا بت پرستی بت گری ہے

 تمنا بت پرستی، بت گری ہے

محبت ہر تمنا سے بری ہے

تِرے حسنِ تمنا آفریں نے

خلوصِ عشق پر تہمت دھری ہے

مِرے قصد و طلب کا نام لے کر

روا ان کے لیے جلوہ گری ہے

مجھ سے ساقی نے کہی رات کو کیا بات اے جوش

مجھ سے ساقی نے کہی رات کو کیا بات اے جوش

یعنی اضداد ہیں پروردۂ یک ذات اے جوش

مست و بے گانہ گزر جا کرۂ خاکی سے

یہ تو ہے رہگزرِ سیلِ خیالات اے جوش

اور تو اور، خود انسان بہا جاتا ہے

کتنا پر ہول ہے طوفانِ روایات اے جوش

گل ہو گیا زمین پہ اوہام کا چراغ

 منقبت بر مولائے کائنات علی کرم اللہ وجہہ


گُل ہو گیا زمین پہ اوہام کا چراغ

تشکیک سے یقین کو حاصل ہوا فراغ

جھوما نسیمِ عقل سے نوعِ بشر کا باغ

اترا دماغ دل میں تو دل بن گیا دماغ

اوجِ خِرد پہ صبح کی سرخی عیاں ہوئی

یہ آئے تو حریمِ نظر میں اذاں ہوئی

محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام مرثیہ


محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں

آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں

وہ لوگ خدا شاہد قسمت کے سکندر ہیں

جو سرور عالم کا میلاد مناتے ہیں

جن کا بھری دنیا میں کوئی بھی نہیں والی

اس کو بھی میرے آقا سینے سے لگاتے ہیں

میرے لیے ہر گلشن رنگیں سے بھلی ہے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


 میرے لیے ہر گلشنِ رنگیں سے بھلی ہے

کانٹے کی وہ اک نوک جو طیبہ میں پلی ہے

جو انؐ کی گلی ہے وہی دراصل ہے جنت

دراصل جو جنت ہے وہی ان کی گلی ہے

اے صل علیٰ صاحبِ معراج کی سیرت

جو بات ہے قرآن کے سانچے میں ڈھلی ہے

حسن کو حسن نظر شوق لقا کیا سمجھے

 بحر میں کچھ نہیں قطروں کے سوا، کیا سمجھے

ہوئے جاتے ہیں وہ قطرے بھی ہوا، کیا سمجھے

بزم میں کوئی نہیں، اور بپا ہیں ہر سُو

غمزہ و عشوہ و انداز و ادا، کیا سمجھے

میکدے میں نہ صراحی ہے، نہ ساغر، نہ شراب

کوئی یہ راز کہ گردش میں ہے کیا، کیا سمجھے

یہ شکوہ ہے کہ اس گھر میں کوئی میرے سوا کیوں ہے

 کسی نے یہ سبق تکوین کا آخر لکھا کیوں ہے

کہ جس کی ابتدا کیا، متن کیونکر، انتہا کیوں ہے

پسِ پردہ دھرا کیا ہے، یہ ہے سب کھیل پردے کا

تلاشِ قصر آئینہ نظر کا اقتضا کیوں ہے

یہ صحرا بلبلوں کا ہے یہاں ہر خول خالی ہے

خیالِ قیس ہر محمل کے پیچھے دوڑتا کیوں ہے

حسن کیا ہے یہ یار کی چیز ہے

 حسن کیا ہے؟ یہ یار کی چیز ہے

عشق کیا ہے؟ یہ بے کار کی چیز ہے

ہجر کیا ہے؟ یہ نقد ہے، ارزاں ہے

وصل کیا ہے؟ یہ ادھار کی چیز ہے

دل کیا ہے؟ یہ گھائل ہے تِری آنکھوں سے

آنکھ کیا ہے؟ یہ وار کی چیز ہے

آج مضطر ہے مری جان خدا خیر کرے

 آج مضطر ہے مِری جان خدا خیر کرے

دل میں ہے درد کا طوفان خدا خیر کرے

رات کو نیند نہیں صبح کو آرام نہیں

ان کے آنے کا ہے امکان خدا خیر کرے

وہ ملاتے ہیں نظر غیر کی صورت ہم سے

یہ تو ہے موت کا سامان خدا خیر کرے

مرے کمرے کی کھڑکی سے

دائرہ در دائرہ


مِرے کمرے کی کھڑکی سے

مجھے اک اور کھڑکی

رات اور دن دیکھتی ہے

اس کی آنکھوں کی نمی مجھ کو

کچھ ایسے نم سی رکھتی ہے

ہوا میں زہر پھیلا ہے

 پیش قدمی


ہوا میں زہر پھیلا ہے

نہیں ہے ذائقہ اس کا

پتہ چلتا نہیں کچھ بھی

تنفس میں کوئی الجھن سی ہوتی ہے

یہ میری موت کی جانب کہیں پہلا قدم نہ ہو

سکون کچھ تو ملا دل کا ماجرا لکھ کر

 سکون کچھ تو ملا دل کا ماجرا لکھ کر

لفافہ پھاڑ دیا پھر تِرا پتہ لکھ کر

سمجھ میں یہ نہیں آتا خطاب کیسے کروں

حروف کاٹ دئیے میں نے بارہا لکھ کر

قلم نے ٹوکا بھی دل کی صدا نے روکا بھی

مگر جو اس نے کہا، میں نے دے دیا لکھ کر

وہ ڈرتی ہے کہیں کوئی محبت ہی نہ کر بیٹھے

 اسی باعث زمانہ ہو گیا ہے اس کو گھر بیٹھے

وہ ڈرتی ہے کہیں کوئی محبت ہی نہ کر بیٹھے

ہمارا جرم یہ ہے ہم نے کیوں انصاف چاہا تھا

ہمارا فیصلہ کرنے کئی بے داد گر بیٹھے

میسر پھر نہ ہو گا چلچلاتی دھوپ میں چلنا

یہیں کے ہو رہو گے، سائے میں اک پَل اگر بیٹھے

آج بھڑکی رگ وحشت ترے دیوانوں کی

 آج بھڑکی رگِ وحشت ترے دیوانوں کی

قسمتیں جاگنے والی ہیں بیابانوں کی

پھر گھٹاؤں میں ہے نقارۂ وحشت کی صدا

ٹولیاں بندھ کے چلیں دشت کو دیوانوں کی

آج کیا سُوجھ رہی ہے ترے دیوانوں کو

دھجیاں ڈھونڈھتے پھرتے ہیں گریبانوں کی

سو کا نوٹ؛ یہ جناب قائد اعظم کی اک توہین ہے

 سو کا نوٹ


دیکھوں، دیکھوں، کیا عجوبہ ہے، ذرا دینا ادھر

قائد اعظم کی ہے تصویر سو کے نوٹ پر

ذہن بھٹکا ہے یہ کس کا، یہ ستم کس نے کیا

میری خوش طبعی میں شامل زہرِ غم کس نے کیا

مصلحت، کہہ کر زبانِ حال سی دی جائے گی

کیا اسی تصویر سے رشوت بھی لی، دی جائے گی

وہ سبز پیڑ بھی اب سوکھنے لگا میرے یار

 وہ سبز پیڑ بھی اب سوکھنے لگا میرے یار

جہاں تھا نام تمہارا کھدا ہوا میرے یار

یہ دیکھ کر کہ وہ ترچھی نظر سے دیکھتی ہے

بدل لیا ہے نگاہوں کا زاویہ میرے یار

نجومیوں سے، ستاروں سے، رشتہ داروں سے

تمہارے بعد کسی سے نہ مل سکا میرے یار

لومڑی کے خواب

 لومڑی کے خواب


رات کی آنکھ کھلی

خواب سوئے نہیں تھے

بے چین

بے شکل

طویل خواب

Tuesday 22 September 2020

ہلتی ہے زلف جنبش گردن کے ساتھ ساتھ

 ہلتی ہے زلف جنبش گردن کے ساتھ ساتھ

ناگن بھی ہے لگی ہوئی رہزن کے ساتھ ساتھ

کس کی کدورتوں سے یہ مٹی خراب ہے

کس کا غبار ہے تِرے دامن کے ساتھ ساتھ

اٹھا تھا منہ چھپائے ہوئے میں ہی صبح کو

جاتا تھا میں ہی رات کو دشمن کے ساتھ ساتھ

خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی

 خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی

ہاں تو کہتے ہو مگر ساتھ نہیں تھوڑی سی

حال دل سن کے مِرا برسر رحمت تو ہیں کچھ

ابھی باقی ہے مگر چین بہ جبیں تھوڑی سی

ہوئی جاتی ہے سحر ایسا بھی گھبرانا کیا

رات گر ہے بھی تو اے ماہ جبیں تھوڑی سی

پیتم من کی آنکھیں کھول

 پیتم من کی آنکھیں کھول

مور پپیہے تُو بھی بول

بیت گئی رُت زہر بھری

اب تو کان میں امرت گھول

من میں بھر دیں اجیارا

تیرے دلکش، کومل بول

چودھواں اس چندر کا سال ہوا

 چودھواں اس چندر کا سال ہوا

حسن میں بدر با کمال ہوا

تجھ سا چنچل نہیں زمانے میں

رم میں اے من ہرن غزال ہوا

باغ دل میں تو نخل طوبیٰ ہے

سرو تجھ قد سے پائمال ہوا

اگر ایک ہزار لوگ تمہیں پیار کرتے ہیں تو رسول حمزہ بھی

 اے عورت


اگر ایک ہزار لوگ تمہیں پیار کرتے ہیں تو رسول حمزہ بھی ان میں ایک ہو گا

اگر سو لوگ تمہیں پیار کرتے ہیں تو ان میں رسول کو بھی شامل کر لو

اگر دس لوگ تمہیں پیار کرتے ہیں، تو ان دس میں رسول حمزہ ضرور ہو گا

اے عورت! اگر پوری دنیا میں صرف ایک شخص تمہیں پیار کرتا ہے تو وہ مرے سوا کون ہو سکتا ہے

اور اگر تم تنہا اور اداس ہو اور کوئی تمہیں پیار نہیں کرتا تو سمجھ لینا کہیں بلند پہاڑوں میں رسول حمزہ مر چکا ہے


رسول حمزہ توف

اردو ترجمہ؛ مستنصر حسین تارڑ

بند کرو ڈینگیں مارنا

بند کرو ڈینگیں مارنا


بند کرو ڈینگیں مارنا

کہ آدمی، جو وقت ہی کا دوسرا نام ہیں

کچھ بھی نہیں ہیں، تمہارے سائے کے سوا

اور یہ کہ ان کا شکوہ

دراصل عکس ہے، تمہارا ہی

یہ آدمی ہی ہیں، جو دیتے ہیں اپنے عہد کو

حسینوں کے تبسم کا تقاضا اور ہی کچھ ہے

 حسینوں کے تبسم کا تقاضا اور ہی کچھ ہے

مگر کلیوں کے کھلنے کا نتیجہ اور ہی کچھ ہے

نگاہیں مشتبہ ہیں میری پاکیزہ نگاہوں پر

مِرے معصوم دل پر ان کو دھوکا اور ہی کچھ ہے

حسینوں سے محبت ہے انہی پر جان دیتا ہوں

مِرا شیوہ ہے یہ لیکن زمانا اور ہی کچھ ہے

بھول کر تجھ کو بھرا شہر بھی تنہا دیکھوں

 بھول کر تجھ کو بھرا شہر بھی تنہا دیکھوں

یاد آ جائے تو خود اپنا تماشا دیکھوں

مسکراتی ہوئی ان آنکھوں کی شادابی میں

میں تِری روح کا تپتا ہوا صحرا دیکھوں

اتنی یادیں ہیں کہ جمنے نہیں پاتی ہے نظر

بند آنکھوں کے دریچوں سے میں کیا کیا دیکھوں

نہ سوال بن کے ملا کرو نہ جواب بن کے ملا کرو

 نہ سوال بن کے ملا کرو، نہ جواب بن کے ملا کرو

میری زندگی میرے خواب ہیں مجھے خواب بن کے ملا کر

ارے شام کو میرے دوستو! نہ عذاب بن کے ملا کرو

مجھے مے کدے میں ملو اگر تو شراب بن کے ملا کرو

تیرا ارماں تری حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں

 تیرا ارماں تِری حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں

دل میں اب تیری محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

زندگی مجھ کو کہاں لے کے چلی آئی ہے

دور تک سایۂ ظلمت کے سوا کچھ بھی نہیں

ہر طرف پھول حقیقت کے کھلے ہیں، لیکن

آنکھ میں خواب حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں

یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں

 یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں

ٹکرا کے آبگینے سے پتھر ہوا ہوں میں

آنکھوں کے جنگلوں میں مجھے مت کرو تلاش

دامن پہ آنسوؤں کی طرح آ گیا ہوں میں

یوں بے رخی کے ساتھ نہ منہ پھیر کے گزر

اے صاحبِ جمال! تِرا آئینہ⌗ ہوں میں

اہل دل درد کی املاک سے وابستہ ہیں

 اہلِ دل درد کی املاک سے وابستہ ہیں

تیرے دیوانے تِری خاک سے وابستہ ہیں

جو عطا کی تھی بزرگوں نے قبا کی صورت

آج تک ہم اسی پوشاک سے وابستہ ہیں

آشیاں جلنے پہ بے گھر نہیں سمجھا جائے

یہ پرندے خس و خاشاک سے وابستہ ہیں

سوہنی مجھ سے مل لو آ کر

 سوہنی


سوہنی، مجھ سے مل لو آ کر

سوہنی، میں بیمار پڑا ہوں

سوہنی، درد بہت ہے اب تو

سوہنی، میں لاچار پڑا ہوں

سوہنی، ایک اذیت سی ہے

سوہنی، ساتھ میں چاہت سی ہے

مسل دیا ہے درندوں نے جن صداؤں کو

 مسل دیا ہے درندوں نے جن صداؤں کو

وہ چیخ ہے جو کلیجہ ہلا کے رکھ دے گی

حکومتوں سے کہو جلد احتساب کرے

یہ آگ ورنہ زمیں کو جلا کے رکھ دے گی

جب آنسوؤں کی صدا حشر بن کے اٹھے گی

یہ تخت و تاج ہوا میں اڑا کے رکھ دے گی

پھر سے آرائش ہستی کے جو ساماں ہوں گے

 پھر سے آرائشِ ہستی کے جو ساماں ہوں گے

تیرے جلووں ہی سے آباد شبستاں ہوں گے

عشق کی منزلِ اول پہ ٹھہرنے والو

اس سے آگے بھی کئی دشت و بیاباں ہوں گے

تو جہاں جائے گی غارت گرِ ہستی بن کر

ہم بھی اب ساتھ تِرے گردشِ دوراں ہوں گے

Monday 21 September 2020

راز سر بستہ محبت کے زباں تک پہنچے

 رازِ سر بستہ محبت کے زباں تک پہنچے

بات بڑھ کر یہ خدا جانے کہاں تک پہنچے

کیا تصرف ہے تِرے حسن کا اللہ، اللہ

جلوے آنکھوں سے اتر کر دل و جاں تک پہنچے

تِری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا

سرحد عقل سے گزرے تو یہاں تک پہنچے

آ کہ پھر آج ہم آہنگ ہوئی ہے لب جو

 آ کہ پھر آج ہم آہنگ ہوئی ہے لبِ جُو

نے کی لے، چاند کی تنویر، صبا کی خوشبو

منعقد پھر سے کروں محفلِ جمشید و قباد

دو گھڑی صدر نشینی پہ جو آمادہ ہو تُو

وقتِ کُن جو دلِ یزداں میں ہوا تھا غلطاں

میرے دل میں بھی وہی آ کے جگا دے جادو

وفا کے پیمان سب بھلا کر

 عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

خدا کے قاتل 


وفا کے پیمان سب بھلا کر 

جفائیں کرتے وفا کے قاتل 

رسولؐ حق کے جو امتی ہیں 

وہی ہیں آل عبا کے قاتل 

یہ اس کی اپنی ہی مصلحت ہے 

وہ جسم رکھتا نہیں ہے، ورنہ 

آنکھ کو یار سے خالی ملا قریہ سارا

 آنکھ کو یار سے خالی ملا قریہ سارا

جب بھی دل شدتِ وحشت میں پکارا یارا

دم بہ دم کٹتی ہوئی عمر کبھی یہ تو بتا

سانس چلتی ہے کہ شہ رگ میں رواں ہے آرا

میرے ٹھہرے ہوئے آنسو کو تُو پانی نہ سمجھ

آنکھ سے ٹپکا تو بن جائے گا روشن تارا