تیری طلب میں ایسے گرفتار ہو گئے
ہم لوگ خود بھی رونقِ بازار ہو گئے
کیا خواب تھا کہ کچھ نہیں ٹھہرا نگاہ میں
کیا عکس تھا کہ نقش بہ دیوار ہو گئے
حدِ نظر بچھا تھا تری دید کا سماں
جو راستے تھے سہل وہ دشوار ہو گئے
ان کو بھی اپنے نام کی حرمت عزیز تھی
جو تیرا ساتھ دینے پہ تیار ہو گئے
بپھرا ہوا بدن کسی قاتل سے کم نہ تھا
ہم بھی وفورِ شوق میں تلوار ہو گئے
گو اپنے پاس ایک نظر کے سوا نہ تھا
ہم ہر بتِ حسیں کے خریدار ہو گئے
یہ شہر زلزلوں کے تھپیڑوں سے ہل گیا
کیا کیا عجب محل تھے کہ مسمار ہو گئے
خواہش کی الجھنوں پہ کوئی بس نہ چل سکا
دعوے فسونِ یار کے بے کار ہو گئے
جمیل یوسف
No comments:
Post a Comment