Saturday 26 September 2020

خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کچھ ایسا تھا

 خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کچھ ایسا تھا

میں تجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

ٹھہر کے سن تو سہی غم کی ڈوبتی آواز

پلٹ کے دیکھ تو لے، منظرِ شکستِ وفا

تو خواب تھا مجھے نیند سے جگایا کیوں

تو وہم تھا تو مرے ساتھ ساتھ کیوں نہ چلا

کہاں کہاں لیے پھرتا کشاں کشاں مجھ کو

لپٹ گیا ہے مرے پاؤں سے مرا سایہ

ہوا چلی ہے کہ تلوار سی چلی ہے ابھی

لہو میں ڈوب گیا شاخ شاخ کا چہرہ

دمک اٹھی ہیں جبینیں مرے خیالوں کی

لپک گیا ہے کہیں تیری یاد کا شعلہ

کسی کو خواہشِ دشتِ وجود ہی کب تھی

سنا فسانۂ ہستی تو پھر رہا نہ گیا

سنہری رُت کے کسی نیلگوں تناظر میں

خطِ افق پہ وہ پیلا گلاب پھر نہ کھلا


اسلم انصاری

No comments:

Post a Comment