تعلقات کے زخموں کا ہوں ستایا ہوا
جو شام آئی مِرا سایہ بھی پرایا ہوا
مٹے گا ذہن سے کب تیری یاد کا افسوں
ہزار صدیوں سے یہ بوجھ ہے اٹھایا ہوا
وہ ایک شخص ابھی دل میں چھپ کے بیٹھا ہے
وہ شخص جو کبھی اپنا کبھی پرایا ہوا
ہر ایک لمحے کی آہٹ پہ دل لرزتا ہے
زمانے بھر کو ہو جیسے گلے لگایا ہوا
نئی رُتوں کی ہوا نے عجیب سازش کی
کہ موج خوں میں ہے ہر برگِ گل نہایا ہوا
کسی کے سانس کی آواز تک نہیں آتی
سکوت مرگ نے پہرہ ہے وہ بٹھایا ہوا
ہر اک نظر میں کوئی اجنبی سی آہٹ ہے
ہر ایک دل میں کوئی خوف ہے سمایا ہوا
وہ تیرگی ہے کہ آنکھوں میں اک کرن بھی نہیں
وہ خامشی ہے کہ لمحوں نے زہر کھایا ہوا
میں اپنے وقت کے زنداں کا ایک قیدی ہوں
نظر نظر ہے فصیلوں نے سر اٹھایا ہوا
گریز پا ہے وہ عمر عزیز کی مانند
ہے ایک عمر سے اپنا جسے بنایا ہوا
نہ کوئی یار نہ ہمدم نہ کوئی ہم راہی
تمہاری زلف کا سایہ تو خیر سایہ ہوا
جمیل یوسف
No comments:
Post a Comment