Tuesday, 29 September 2020

کس لئے پینے کو مانگیں بادہ و پیمانہ ہم

 کس لیے پینے کو مانگیں بادہ و پیمانہ ہم

ہو گئے بدمست ساقی دیکھ کر میخانہ ہم

کیوں کہیں اپنے کو سوزِ عشق سے بیگانہ ہم

تم جلاؤ، ہم جلیں، تم شمع ہو، پروانہ ہم

کچھ دنوں صحرا بصحرا اب اڑائیں خاک بھی

مدتوں پھرتے رہے ویرانہ در ویرانہ ہم

وہ جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں فرماتے ہیں

لیکن اپنے کو کہیں کس واسطے دیوانہ ہم

اس قدر بھر جائے پی کر جس قدر خالی کریں

چاہتے ہیں کوئی اس ترکیب کا پیمانہ ہم

سر بسجدہ کیوں نہ ہوتے اپنے دل کے سامنے

سن چکے تھے واقعاتِ کعبہ و بت خانہ ہم

آرزوئیں چند نکلیں، حسرتیں چند آ گئیں

خانۂ دل کو سمجھتے ہیں مسافر خانہ ہم

بزمِ سوز و ساز میں یہ بھی ہے دل سوزی کوئی

سیکڑوں پروانے جل جائیں کریں پروانہ ہم

مے کدے میں ہر گھڑی ساغر چھلکتا ہی رہے

جان لیں کیوں اس کو اپنی عمر کا پیمانہ ہم

جان بھی اب ان کو دے دیں دل تو پہلے دے چکے

کیا کریں اس کے سوا اے ہمتِ مردانہ ہم

گل بدامن ہے چمن ساغر بکف ہر شاخِ گل

کیوں نہ ایسے میں کریں اک نعرۂ مستانہ ہم

کشمکش دیر و حرم کی کس سے جھیلی جائے گی

ہے یہی بہتر کہ رکھیں مشربِ رندانہ ہم

دل کسی کو سونپ کر کیا دل کا غم اب کیجیۓ

لے چکے سودائے الفت، دے چکے بیعانہ ہم

بجھ چکی تھی شمع محفل اٹھ چکے تھے اہلِ بزم

کس سے کہتے قصۂ خاکستر پروانہ ہم

وقت جو گزرے جنون میں قدر اس کی چاہیۓ

جشِ وحشت ہے سب کچھ پھر نہ صحرا نہ ہم

عمر بھر دریائے ذوق و شوق میں بہتے رہے

نوح اس طوفان سے رکھتے نہ کیوں یارانہ ہم


نوح ناروی

No comments:

Post a Comment