جسم کی ہر بات ہے آوارگی یہ مت کہو
ہم بھی کر سکتے ہیں ایسی شاعری یہ مت کہو
اس نظر کی، اس بدن کی گنگناہٹ تو سنو
ایک سی ہوتی ہے ہر اک راگنی یہ مت کہو
ہم سے دیوانوں کے بِن دنیا سنورتی کس طرح
عقل کے آگے ہے کیا دیوانگی یہ مت کہو
کٹ سکی ہیں آج تک سونے کی زنجیریں کہاں
ہم بھی اب آزاد ہیں یارو ابھی یہ مت کہو
پاؤں اتنے تیز ہیں اٹھتے نظر آتے نہیں
آج تھک کر رہ گیا ہے آدمی یہ مت کہو
جتنے وعدے کل تھے اتنے آج بھی موجود ہیں
ان کے وعدوں میں ہوئی ہے کچھ کمی یہ مت کہو
دل میں اپنے درد کی چھٹکی ہوئی ہے چاندنی
ہر طرف پھیلی ہوئی ہے تیرگی یہ مت کہو
جاں نثار اختر
No comments:
Post a Comment