Tuesday 29 September 2020

جسم کی ہر بات ہے آوارگی یہ مت کہو

 جسم کی ہر بات ہے آوارگی یہ مت کہو

ہم بھی کر سکتے ہیں ایسی شاعری یہ مت کہو

اس نظر کی، اس بدن کی گنگناہٹ تو سنو

ایک سی ہوتی ہے ہر اک راگنی یہ مت کہو

ہم سے دیوانوں کے بِن دنیا سنورتی کس طرح

عقل کے آگے ہے کیا دیوانگی یہ مت کہو

کٹ سکی ہیں آج تک سونے کی زنجیریں کہاں

ہم بھی اب آزاد ہیں یارو ابھی یہ مت کہو

پاؤں اتنے تیز ہیں اٹھتے نظر آتے نہیں

آج تھک کر رہ گیا ہے آدمی یہ مت کہو

جتنے وعدے کل تھے اتنے آج بھی موجود ہیں

ان کے وعدوں میں ہوئی ہے کچھ کمی یہ مت کہو

دل میں اپنے درد کی چھٹکی ہوئی ہے چاندنی

ہر طرف پھیلی ہوئی ہے تیرگی یہ مت کہو


جاں نثار اختر

No comments:

Post a Comment