لوحِ ایام
آج کھولا جو اتفاقاً ہی
اپنے سامان میں رکھا اک بیگ
ڈھیر نکلا پرانی یادوں کا
اور یکدم چمک اٹھا ماضی
موم جامہ کیے ہوئے تعویذ
ایک یٰسین، اک حدیثِ کساء
جیبی سائز کی اک دعا کی کتاب
(اب دعا کا حساب کیا رکھنا)
کچھ قبولی گئی ہیں، کچھ باقی
ایک دن ہوں گی مستجاب سبھی
کھُلتے کھُلتے کھُلے گا بابِ قبول
(ایک دن تو ملے گا ان کا جواب)
یاد آتا ہے مولوی کا خطاب
ربِ اکبر دعا وصول کرے
جتنی جائز ہوں سب قبول کرے
اب جو جائز نہ ہوں، کہاں جائیں؟
ایک کاغذ پہ اک ادھوری غزل
ایک بینر پرانے وقتوں کا
جاگو، جاگو، مرے وطن جاگو
کتنی نسلوں کی بھینٹ لے گا اب
میرا پیارا وطن، خدا جانے
کتنی نسلیں زمیں کا رزق ہوئیں
ایک سویا وطن جگانے میں
ایک کنگھی کا اہتمام بھی ہے
اب، مگر سر پہ اتنے بال کہاں؟
سرد ہوتے ہوئے بدن میں اب
دلربا شعلۂ وصال کہاں؟
ایک چشمہ پرانے نمبر کا
(دیکھنے کو یہ عالمِ امکاں)
اب جو نمبر ہے کامپلکس ہے وہ
اک نیا زاویہ نگاہ کا ہے
جیسا یادوں میں حال ہے اختر
(حال ایسا دلِ تباہ کا ہے)
اک پرانا امام ضامن بھی
جس میں اب تک بندھے ہیں کچھ سِکے
جیسے چمٹی ہوئی بدن سے جاں
کس محبت سے ماں نے باندھا تھا
ربِ اکبر، بلند درجہ دے
ایک مدت ہوئی اسے بچھڑے
الفا بیٹک میں ایک فون انڈکس
جس میں محفوظ تھے سبھی نمبر
اب وہ نمبر رہے، نہ دوست رہے
اس کو کہتے ہیں گردشِ ایام
ایک کونے میں اب جو دیکھا تو
مارے حیرت کے چونک اٹھا ہوں
خشک پھولوں کے درمیاں رکھی
نِیم وا آنکھ سے مجھے تکتی
اک 'محبت' بھی رکھ کے بھول گیا
مجید اختر
No comments:
Post a Comment