Wednesday 30 September 2020

کبھی حیات کا غم ہے کبھی ترا غم ہے

 کبھی حیات کا غم ہے، کبھی تِرا غم ہے

ہر ایک رنگ میں ناکامیوں کا ماتم ہے

خیال تھا تِرے پہلو میں کچھ سکون ہو گا

مگر یہاں بھی وہی اضطراب پیہم ہے

مِرے حبیب مری مسکراہٹوں پہ نہ جا

خدا گواہ، مجھے آج بھی ترا غم ہے

سحر سے رشتۂ امید باندھنے والے

چراغ زیست کی لو شام ہی سے مدھم ہے

یہ کس مقام پہ لے آئی زندگی راہی

قدم قدم پہ جہاں بے بسی کا عالم ہے


احمد راہی

No comments:

Post a Comment