میرے غم پر، گمانِ غم ہی نہیں
اس کو لگتا ہے آنکھ، نم ہی نہیں
کیسے روکوں میں، خود کو جانے سے
ہاتھ شل، بازوؤں میں، دم ہی نہیں
راستے ذات کے بھی ٹیڑھے ہیں
راہگزر، تیرے پیچ و خم ہی نہیں
تلخیاں، رائیگانی، حسرت و غم
میرے پیالے میں ایک سَم ہی نہیں
اپنی وحشت بھی یاد ہے مجھ کو
یاد آیا ہے، تیرا رم ہی نہیں
بحرِ غم پر سکوت طاری ہے
اب وہ لہروں کے زیر و بم ہی نہیں
شائستہ سحر
No comments:
Post a Comment