Saturday, 26 September 2020

گھر اپنا وادی برق و شرر میں رکھا جائے

 گھر اپنا وادئ برق و شرر میں رکھا جائے 

تعلقات کا سودا نہ سر میں رکھا جائے 

اگر طلب ہو کبھی چند گھونٹ پانی کی 

سمندروں کا تصور نظر میں رکھا جائے 

سنا ہے دختر تہذیب گھر سے بھاگ گئی 

چھپا کے بچوں کو ہرگز نہ گھر میں رکھا جائے 

پتہ نہیں کہ کہاں رہزنوں کی ہو یلغار 

کوئی دفاع بھی رخت سفر میں رکھا جائے 

بتاؤ کیسے ملے گی ہمیں صحیح تعبیر 

جب اپنا خواب ہی چشم دگر میں رکھا جائے 

لو اب تو ہم بھی ہواؤں کے ساتھ چلنے لگے 

ہمارا نام بھی اہلِ ہنر میں رکھا جائے 

کتاب زیست میں باب الم بھی ہو محفوظ 

سیاہ رات کا منظر سحر میں رکھا جائے 

قفس کو لے کے جو اڑا جائے گلستاں کی طرف 

وہ عزم طائر بے بال و پر میں رکھا جائے 


امان اللہ خالد

No comments:

Post a Comment