ہم غیر سمجھتے اسے ایسا بھی نہیں خیر
لیکن وہ کسی کا نہیں اپنا بھی نہیں خیر
جو سوچتے رہتے ہیں وہ کرنا نہیں ممکن
کرنے کے ارادے سے تو سوچا بھی نہیں خیر
شُہرا ہے کہ رسوائی کی تصدیق ہے وہ شخص
شہرت کا بھروسہ کوئی ہوتا بھی نہیں خیر
کچھ بن کے دکھانے کی تمنا کا بنا کیا
اتنی سی تمنا میں تو بنتا بھی نہیں خیر
ہم اس کے لیے اپنی نظر میں برے ٹھہریں
اچھا ہے وہ اچھا بھئی اتنا بھی نہیں خیر
کچھ سینت کے رکھنے کا ہمیں شوق نہیں تھا
کچھ سینت کے رکھنے کے لیے تھا بھی نہیں خیر
گو ایک اذیت ہے تیرا رنگِ تغافل
یہ رنگ کسی اور پہ سجتا بھی نہیں خیر
اس شخص پہ تنہائی تو اترے گی بلا کی
جو ہے بھی نہیں خیر لگتا بھی نہیں خیر
سب خیر ہو سب خیر ہو اے مجمع ظاہر
ہم بھیڑ کا حصہ نہیں تنہا بھی نہیں خیر
یہ خیر فقط لفظ نہیں فہم و یقیں ہے
جو خیر سمجھتا نہیں ہوتا بھی نہیں خیر
حمیدہ شاہین
No comments:
Post a Comment