Saturday 26 September 2020

اور آہستہ کیجیے باتیں دھڑکنیں کوئی سن رہا ہو گا

گیت


 اور آہستہ کیجیۓ باتیں

دھڑکنیں کوئی سن رہا ہو گا

لفظ گرنے نہ پائے ہونٹوں سے

وقت کے ہاتھ ان کو چن لیں گے

کان رکھتے ہیں یہ در و دیوار

راز کی ساری بات سن لیں گے

اور آہستہ کیجیۓ باتیں

دھڑکنیں کوئی سن رہا ہو گا


ایسے بولو کہ دل کا افسانہ

دل سنے اور نگاہ دہرائے

اپنے چاروں طرف کی یہ دنیا

سانس کا شور بھی نہ سن پائے

اور آہستہ کیجیۓ باتیں

دھڑکنیں کوئی سن رہا ہو گا


آئیے بند کر لیں دروازے

رات سپنے چرا نہ لے جائے

کوئی جھونکا ہوا کا آوارہ

دل کی باتوں کو اڑا نہ لے جائے

اور آہستہ کیجیۓ باتیں

دھڑکنیں کوئی سن رہا ہو گا


آج اتنے قریب آ جاؤ

دھڑکنوں کا کہیں نشاں نہ رہے

ایسے اک دوسرے میں گم ہو جائیں

فاصلہ کوئی درمیاں نہ رہ جائے

اور آہستہ کیجیۓ باتیں

دھڑکنیں کوئی سن رہا ہو گا


ظفر گورکھپوری

No comments:

Post a Comment