کر ہی گئے تھے پیاس کا جنگل عبور ہم
بکھرے کنارِ آب سے تھوڑی ہی دور ہم
پھر یوں ہوا کہ خود ہی اندھیروں میں کھو گئے
اک عمر بانٹتے رہے لوگوں میں نور ہم
منہ زور آندھیوں کو شکایت یہی تو ہے
دیکھیں نہ اشتیاق سے پیڑوں پہ بُور ہم
منصوبہ سفر ہی بڑا جاں گداز تھا
بیٹھے بٹھائے تھک کے ہوئے چوُر چُور ہم
تیزاب تھا جو پورے بدن میں سما گیا
پڑتی اگر پھوار ، سُلگتے ضرور ہم
کیوں اپنا آفتاب سا دامن چھڑا لیا
اتنے تو داغ داغ نہیں تھے حضور ہم
اہل شعور وصل کی مہکار لے اڑے
اسلم کھنگالتے ہی رہے لاشعور ہم
اسلم کولسری
No comments:
Post a Comment