آئینہ
یہ آئینہ بولنے لگا ہے
میں جب گزرتا ہوں سیڑھیوں سے
یہ باتیں کرتا ہے، آتے جاتے میں پوچھتا ہوں
کہاں گئی وہ پھتوئی تیری'
'یہ کوٹ نکٹائی تجھ پہ پھبتی نہیں، یہ مصنوعی لگ رہی ہے
یہ میری صورت پہ نکتہ چینی تو ایسے کرتا ہے جیسے میں اس کا
عکس ہوں اور وہ جائزہ لے رہا ہے میرا
تمہارا ماتھا کشادہ ہونے لگا ہے لیکن'
تمہارے ابرو سُکڑ رہے ہیں
تمہاری آنکھوں کا فاصلہ کمتا جا رہا ہے
'تمہارے ماتھے کی بیچ والی شکن بہت گہری ہوئی ہے
کبھی کبھی بے تکلفی سے بُلا کے کہتا ہے 'طیار بھولو
تم اپنے دفتر کی میز کی داہنی طرف کی دراز میں رکھ کے
بھول آئے ہو مسکراہٹ
جہاں پہ پوشیدہ ایک فائل رکھی تھی تم نے
'وہ مسکراہٹ بھی اپنے ہونٹوں پہ چسپاں کر لو
اس آئینے کو پلٹ کے دیوار کی طرف بھی لگا چکا ہوں
یہ چپ تو ہو جاتا ہے مگر پھر بھی دیکھتا ہے
یہ آئینہ دیکھتا بہت ہے
یہ آئینہ بولتا بہت ہے
گلزار
No comments:
Post a Comment