گدازِ دل سے باطن کا تجلی زار ہو جانا
محبت اصل میں ہے روح کا بیدار ہو جانا
نویدِ عیش سے اے دل ذرا ہُشیار ہو جانا
کسی تازہ مصیبت کے لیے تیار ہو جانا
وہ ان کے دل میں شوقِ خود نمائی کا خیال آنا
وہ ہر شے کا تبسم کے لیے تیار ہو جانا
مزاجِ حسن کو اب بھی نہ سمجھو تو قیامت ہے
ہمارا اور وفا کے نام سے بے زار ہو جانا
سحر کا اس طرف انگڑائی لینا دلفریبی سے
ادھر شاعر کے محسوسات کا بیدار ہو جانا
توسّل سے تِرے دل میں بھروں گا قوتیں برقی
ذرا میری طرف بھی اے نگاہِ یار ہو جانا
وہ آرائش میں سب قوت کسی کا صرف کر دینا
تحمل میں وہ ہر کوشش مِری بے کار ہو جانا
معاذ اللہ اب یہ رنگ ہے دنیا کی محفل کا
خدا کا نام لینا،۔ اور ذلیل و خوار ہو جانا
رگوں سے خون سارا زہر بن کر پھوٹ نکلے گا
ذرا اے جوش ضبطِ شوق سے ہُشیار ہو جانا
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment