Monday 28 September 2020

تیرے لیے سب چھوڑ کے تیرا نہ رہا میں

 تیرے لیے سب چھوڑ کے تیرا نہ رہا میں

دنیا بھی گئی عشق میں تجھ سے بھی گیا میں

اک سوچ میں گم ہوں تِری دیوار سے لگ کر

منزل پہ پہنچ کر بھی ٹھکانے نہ لگا میں

ورنہ کوئی کب گالیاں دیتا ہے کسی کو

یہ اس کا کرم ہے کہ تجھے یاد رہا میں

میں تیز ہوا میں بھی بگولے کی طرح تھا

آیا تھا مجھے طیش مگر جھوم اٹھا میں

اس درجہ مجھے کھوکھلا کر رکھا تھا غم نے

لگتا تھا گیا اب کے گیا، اب کے گیا میں

یہ دیکھ مِرا ہاتھ مِرے خون سے تر ہے

خوش ہو کہ تِرا مدِ مقابل نہ رہا میں

اک دھوکے میں دنیا نے مِری رائے طلب کی

کہتے تھے کہ پتھر ہوں، مگر بول پڑا میں

اب طیش میں آتے ہی پکڑ لیتا ہوں پاؤں

اس عشق سے پہلے کبھی ایسا تو نہ تھا میں


عباس تابش

No comments:

Post a Comment