Saturday 26 September 2020

تم سے انداز شکایت جدا رکھا ہے

 تم سے اندازِ شکایت جدا رکھا ہے

ہم نے انصاف قیامت پہ اٹھا رکھا ہے

لاکھ طوفان آئے بگولے ناچے

تیری یاد کا دیا پھر بھی جلا رکھا ہے

یہ بھرا شہر ہے میرے لیے صحرا کی طرح

اب تیرے بعد تیرے شہر میں کیا رکھا ہے

دِیے اٹھے نہ لو اب وہ شعلۂ سوزاں بن کر

داغ مدت سے جو سینے میں چھپا رکھا ہے

ہم سے برہم ہیں فقط اس لیے دنیا والے

نام کیوں اس بتِ کافر کا خدا رکھا ہے

اشک امڈیں تو یہ برسات ہے دنیا کے لیے

آہ کا نام زمانے نے ہوا بنا رکھا ہے


کوثر نیازی

No comments:

Post a Comment