Wednesday 30 September 2020

سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے

 سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے

مجال دید پہ بجلی گرائی جاتی ہے

خدا بخیر کرے ضبط شوق کا انجام

نقاب میری نظر سے اٹھائی جاتی ہے

اسی کو جلوۂ ایمان عشق کہتے ہیں

ہجوم یاس میں بھی آس پائی جاتی ہے

اب آ گئے ہو تو اور اک ذرا ٹھہر جاؤ

ابھی ابھی مِری میت اٹھائی جاتی ہے

مِرے قیاس کو اپنی تلاش میں کھو کر

مِرے حواس کو دنیا دکھائی جاتی ہے


فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment