باغ نے پہنا سرخ لبادہ کتنا زیادہ
موسمِ دل سادے کا سادہ کتنا زیادہ
کوئی دو کے بیچ میں ہوتا تو یہ بتاتا
کس نے نبھایا اپنا وعدہ کتنا زیادہ
آدم کی مٹی سے نسبت بے حد کم ہے
کرسی میز کے ساتھ برادہ کتنا زیادہ
تجھ چہرے کو ایک ہی رخ سے ہم نے دیکھا
جیسے روشن چاند ہو آدھا کتنا زیادہ
شاہدہ اذنِ رہائی کے دینے سے پہلے
اس نے باندھا توڑا ارادہ کتنا زیادہ
شاہدہ دلاور شاہ
No comments:
Post a Comment