Monday, 28 September 2020

ورثۂ درد ہے تنہائی چھپا لی جائے

 ورثۂ درد ہے تنہائی چھپا لی جائے

اپنے حصے کی یہ جاگیر سنبھالی جائے

کون دیکھے گا تبسم کی نمائش سے پرے

ٹوٹی دیوار پہ تصویر لگا لی جائے

اختلافات نہ بن جائیں تماشہ اے دوست

بیچ میں اب کوئی دیوار اٹھا لی جائے

اپنی رفتار سے اب آوٴ گزاریں دن رات

وقت کے ہاتھ سے زنجیر چھڑا لی جائے

آنکھ بھر آئے کسی کی، نہ دُکھے دل کوئی

ایسی تقریبِ ملاقات نکالی جائے

نہ ہی ادراکِ انا جس کو، نہ پاسِ اقدار

اس مسیحا سے بھلا کیسے دوا لی جائے

کیا سنائیں تمہیں ہم شہرِ یقیں کے حالات

لوگ کہتے ہیں کہ امید اٹھا لی جائے

ورنہ شمشیر بچے گی نہ بچیں گے بازو

وار کرنا ہے تو پھر وار نہ خالی جائے

جان کیا چیز ہے بن آئے جب عزت پہ ظہیر

سر بچے یا گرے، دستار بچا لی جائے


ظہیر احمد

No comments:

Post a Comment