ورثۂ درد ہے تنہائی چھپا لی جائے
اپنے حصے کی یہ جاگیر سنبھالی جائے
کون دیکھے گا تبسم کی نمائش سے پرے
ٹوٹی دیوار پہ تصویر لگا لی جائے
اختلافات نہ بن جائیں تماشہ اے دوست
بیچ میں اب کوئی دیوار اٹھا لی جائے
اپنی رفتار سے اب آوٴ گزاریں دن رات
وقت کے ہاتھ سے زنجیر چھڑا لی جائے
آنکھ بھر آئے کسی کی، نہ دُکھے دل کوئی
ایسی تقریبِ ملاقات نکالی جائے
نہ ہی ادراکِ انا جس کو، نہ پاسِ اقدار
اس مسیحا سے بھلا کیسے دوا لی جائے
کیا سنائیں تمہیں ہم شہرِ یقیں کے حالات
لوگ کہتے ہیں کہ امید اٹھا لی جائے
ورنہ شمشیر بچے گی نہ بچیں گے بازو
وار کرنا ہے تو پھر وار نہ خالی جائے
جان کیا چیز ہے بن آئے جب عزت پہ ظہیر
سر بچے یا گرے، دستار بچا لی جائے
ظہیر احمد
No comments:
Post a Comment