Sunday, 27 September 2020

کوئی دریا ہے نہ دیوار کھڑی ہے لیکن

 کوئی دریا ہے نہ دیوار کھڑی ہے لیکن

بیچ میں ایک صدی آن پڑی ہے لیکن

وہ جو کہتا ہے مجھے ہجر نہیں ہے لاحق

بات کچھ بھی یہ نہیں، بات بڑی ہے لیکن

آنکھ صحرا کی طرح خشک سہی اندر سے

سات ساون سے مسلسل ہی جھڑی ہے لیکن

تین دیواروں پہ گزرے ہوئے موسم کے نشاں 

چوتھی دیوار پہ آ ویزاں گھڑی ہے لیکن

دن کو سورج کے مقابل نہیں ٹھہری، سچ ہے

یہ ہوا رات چراغوں سے لڑی ہے لیکن

کوئی سایہ، کوئی اشجار نہیں ہیں رِہ میں 

دھوپ کے ساتھ مسافت بھی کڑی ہے لیکن

رات کے گھاؤ نے ہر درد سمیٹا خود میں

اک نشانی سرِ افلاک جڑی ہے لیکن

زنگ نے اور کِیا زہر سے آلود اسے 

گڑیا کے سینے پہ سوئی وہ گڑی ہے لیکن


شاہدہ دلاور شاہ

No comments:

Post a Comment