اب اور چلنے کا اس دل میں حوصلہ ہی نہ تھا
کہ شہرِ شب میں اجالے کا شائبہ ہی نہ تھا
میں اس گلی میں گیا لے کے زعمِ رسوائی
مگر مجھے تو وہاں کوئی جانتا ہی نہ تھا
گدازِ جاں سے لیا میں نے پھر غزل کا سراغ
کہ یہ چراغ تو جیسے کبھی بجھا ہی نہ تھا
کوئی پکارے کسی کو تو خود ہی کھو جائے
ہوا تو ہے مگر ایسا کبھی سنا ہی نہ تھا
کسے کہیں کہ رفاقت کا داغ ہے دل پر
بچھڑنے والا تو کھل کر کبھی ملا ہی نہ تھا
مسافروں کو کئی واہمے ستاتے ہیں
ٹھہرتے کیا کہ دریچوں میں تو دیا ہی نہ تھا
دمک اٹھا تھا وہ چہرہ حیا کی چادر میں
کہ جیسے جرمِ وفا اس کا مدعا ہی نہ تھا
ہمارے ہاتھ فقط ریت کے صدف آئے
کہ ساحلوں پہ ستارہ کوئی رہا ہی نہ تھا
اسلم انصاری
No comments:
Post a Comment