Monday 28 September 2020

دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا

دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا

یک طرفہ محبت نے کہیں کا نہیں چھوڑا

صدیوں ہوئی تہذیب سزا اور جزا کی

اک سجدۂ سرمست نے دیں کا نہیں چھوڑا

تصویر لگی رہ گئی دیوارِ کھنڈر پر

جو رشتہ مکاں سے تھا مکیں کا نہیں چھوڑا

سو روپ تھے وحدت میں بھی اس پارہ صفت کے

پر ہم کو بتِ دل نے یقیں کا نہیں چھوڑا

عشاق چلے آئے ہتھیلی پہ لیے سر

وہ حسن طلب تھا کہ نہیں کا نہیں چھوڑا

محکوم و تہی دست جو حق مانگنے نکلے

پھر تخت بھی اس تخت نشیں کا نہیں چھوڑا

جب ہاتھوں سے رخصت ہوئیں محبوب دعائیں

قطرے کو بھی محرابِ جبیں کا نہیں چھوڑا


شاہدہ دلاور شاہ 

No comments:

Post a Comment