Wednesday 30 September 2020

انہی ہونٹوں کے دہکائے ہوئے ہیں

 انہی ہونٹوں کے، دہکائے ہوئے ہیں

انہی آنکھوں کے زخمائے ہوئے ہیں

نبھایا ساتھ غیروں نے ہمیشہ

مگر اپنوں کے ٹھکرائے ہوئے ہیں

جنھیں آسیب کہتا ہے زمانہ

وہ سائے مجھ میں در آئے ہوئے ہیں

نہ روشن کر سکی صبحِ فروزاں

یہ کن راتوں کے سنولائے ہوئے ہیں

نہیں جاتی ہے اِن پھولوں سے خوشبو

ترے ہاتھوں کے مہکائے ہوئے ہیں

چلی ہیں تتلیاں صحرا کی جانب

کہ بھنورے باغ میں آئے ہوئے ہیں

ہمارے بعد کیا آئے گا کوئی

تری محفل میں ہم آئے ہوئے ہیں

علاجِ ضعفِ بینائی کرو گے

مگر جو عکس دھندلائے ہوئے ہیں


شائستہ سحر

No comments:

Post a Comment