شکستہ چھت میں پرندوں کو جب ٹھکانہ ملا
میں خوش ہوا کہ مِرے گھر کو بھی گھرانا ملا
فلک پہ اڑتے ہوئے بھی نظر زمیں پہ رہی
مزاج مجھ کو مقدر سے طائرانہ ملا
ہم اس کے حسن سخن کی دلیل کیا دیں گے
وہ جتنی بار ملا ہم سے برملا نہ ملا
کسی کی دیکھتی آنکھیں بھی آس پاس رہیں
تجھے ملا تو بہ احساس مجرمانہ ملا
میں اپنی بات درختوں سے کہہ کے روتا ہوں
کہ میرے غم کو کسی رُت نہ آشیانہ ملا
اب آ گیا ہے تو چپ چاپ خامشی کو سن
مِرے سکوت میں اپنی کوئی صدا نہ ملا
لڑی سی ٹوٹ کے آنکھوں سے گر پڑی نیر
لبوں سے حرف کا کوئی بھی سلسلہ نہ ملا
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment