تیرے خیال کی شمعیں جلائے بیٹھے ہیں
درونِ جاں کوئی محفل سجائے بیٹھے ہیں
گلی سے آج کوئی ماہتاب گزرے گا
ستارے شام سے پلکیں بچھائے بیٹھے ہیں
انہی سے پوچھئے تفصیلِ وسعتِ صحرا
جو لوگ عشق میں دنیا لٹائے بیٹھے ہیں
کوئی تو پھول چڑھائے اسی تمنا میں
ہم اپنے آپ کو پتھر بنائے بیٹھے ہیں
ہم اپنی آنکھوں میں جینے کی آرزو لے کر
کسی ہرن کی طرح زخم کھائے بیٹھے ہیں
نشہ سا گھلنے لگا بزم کی فضاؤں میں
جناب کون سی خوشبو لگائے بیٹھے ہیں
یہ بزم وہ ہے جہاں سر بلند قاتل ہے
جو بے قصور ہیں وہ سر جھکائے بیٹھے ہیں
عزم شاکری
No comments:
Post a Comment