لذتِ درد کا اظہار نہ ہونے پائے
دیکھنا، لفظ گنہگار نہ ہونے پائے
دھوپ کی دشتِ بلا خیز میں ہم جلتے رہے
کسی سائے کے طلبگار نہ ہونے پائے
زیست میں درپئے آزار رہے وہ لمحے
جو تِری چسمِ فسوں کار نہ ہونے پائے
اب کے موسم کی ہوا لے اڑی ان فتنوں کو
جو تِرے ہاتھ میں تلوار نہ ہونے پائے
سر پہ خورشید نے نیزے کی انی ماری ہے
پِھر بھی یہ قافلے بیدار نہ ہونے پائے
قیس و فرہاد سے کچھ کم تو نہیں تھے ہم لوگ
ہم مگر رونقِِ بازار نہ ہونے پائے
جمیل یوسف
No comments:
Post a Comment