یہ چند لوگ ہمارے ہیں، سب ہمارے نہیں
چمک رہے ہیں جو سارے سبھی ستارے نہیں
نجانے جلتے ہیں کیوں ہم سے یہ جہاں والے
ہمارے پاس تو اشعار ہیں، شرارے نہیں
وہ مسکراتا ہے اس واسطے تواتر سے
کہ اس نے میری طرح دن ابھی گزارے نہیں
کچھ اس لیے بھی ہم ایسوں کو موت کا ڈر ہے
ہمارے سر ہیں کئی قرض جو اتارے نہیں
نصیب کیسے سنواریں گے ہم سے خانہ بدوش
جنہوں نے بال بھی اپنے کبھی سنوارے نہیں
میں شہسوار ہوں اونچی مہیب لہروں کا
بھنور لبھاتے رہیں گے مجھے کنارے نہیں
فرخ عدیل
No comments:
Post a Comment