Wednesday, 30 September 2020

میں نے چاہا تو نہیں تھا کہ کبھی ایسا ہو

 میں نے چاہا تو نہیں تھا کہ کبھی ایسا ہو

لیکن اب ٹھان چکے ہو تو چلو اچھا ہو

ہم تو یہ بھی نہیں کہتے کہ ہمیں کیا مطلب

اس کو ہوتا ہے کوئی غم تو بھلے ہوتا ہو

تم سے ناراض تو میں اور کسی بات پہ ہوں

تم مگر اور کسی وجہ سے شرمندہ ہو

اب کہیں جا کے یہ معلوم ہوا ہے مجھ کو

ٹھیک رہ جاتا ہے جو شخص تِرے جیسا ہو

ایسے حالات میں ہو بھی کوئی حساس تو کیا

اور بے حس بھی اگر ہو تو کوئی کتنا ہو

جا کے پوچھو تو سہی اس کی خموشی کا سبب

کیا خبر دل میں کوئی بات لیے بیٹھا ہو

اور ہی طرح کے رستے کی تمنا ہے مجھے

جو کسی اور ہی منزل کی طرف جاتا ہو

تاکہ تُو سمجھے کہ مَردوں کے بھی دُکھ ہوتے ہیں

میں نے چاہا بھی یہی تھا کہ تِرا بیٹا ہو

اس کے لہجے سے تو ظاہر نہیں ہوتا جواد

کہ اسے اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا ہو


جواد شیخ

No comments:

Post a Comment