منہ چوم لوں میں ان کا بڑے احترام سے
جو لوگ مجھ کو چھیڑتے ہیں تیرے نام سے
اچھا، تم اس کے سائے میں بیٹھی تھیں ایک دن
یعنی یہ سبز پیڑ بھی جائے گا کام سے
محلوں میں اور ناز میں نخروں میں تُو پلی
تیرا ہو کیا مقابلہ، وہ بھی غلام سے
اس نے کہا کہ ساتھ مِرے کون جائے گا
چیزیں اِدھر اُدھر ہوئیں اپنے مقام سے
چھاتی عجیب آگ سی کھینچے ہوا کے ساتھ
واقف ہوا میں سانس کے ایسے نظام سے
قیدی کا دن میں حال ذرا پوچھتا نہیں
زنجیر کوئی کھینچنے لگتا ہے شام سے
جس نے تجھے دُکھی کیا وہ کون کون ہیں
تلوار میں نے کھینچ لی خود پر نیام سے
ان پر پھر اشتیاق سے چلنے لگا کوئی
ورنہ تمام راستے ہوتے تھے عام سے
ماں کے گلے میں سانس اٹکتی تھی دیر تک
مجھ کو ذرا سی چھینک جو آتی زکام سے
اس دوستی کا بعد میں سوچیں گے بیٹھ کر
پہلے زباں سنبھالیے اپنی لگام سے
ندیم راجہ
No comments:
Post a Comment