نئی بہار کے خوابوں میں ڈوب جاتے ہیں
جو ڈوبنا ہو سرابوں میں ڈوب جاتے ہیں
سوال اس نے کیا جب بھی لاجواب کیا
مِرے سوال جوابوں میں ڈوب جاتے ہیں
کسے خبر ہو کہ شب بھر کے ٹوٹتے نشے
سحر کے وقت شرابوں میں ڈوب جاتے ہیں
مِرے خیال میں جب تیرا رنگ آتا ہے
مِرے خیال گلابوں میں ڈوب جاتے ہیں
تمہارے رخ کو یہ آنکھوں میں عکس کرتے ہیں
تو لفظ لفظ کتابوں میں ڈوب جاتے ہیں
نیل احمد
No comments:
Post a Comment