Monday 28 September 2020

بہت کم وقت ہے دیکھو

 بہت کم وقت ہے دیکھو


مجھے تم سے محبت ہے

تمہارے گھر کے پھولوں سے گزر کر

مِرے کمرے کی کھلتی کھڑکیوں میں پیار کی مہکار بستی ہے

تمہارے بام سے ہو کر مِرے آنگن کی بیلوں پر

صبح سے شام تک چڑیوں کی اڑتی ڈار کی

چہکار رہتی ہے

نسیمِ صبح میرے گھر پہنچنے تک

تمہاری چھت کے زینوں سے اترتی اور چڑھتی ہے

مِرے آنگن کی پُروائی

تمہارے گھر کے بام و در سے کتنی بار ملتی ہے

عجب اک ربط ہے تم سے

تمہاری فکر جیسی ہو، عقیدہ جو بھی ہو لیکن

مجھے تم سے محبت ہے

کہ تم میرے پڑوسی ہو

تمہارے گھر سے میرے گھر کی

اک دیوار ملتی ہے

فنا کی آندھیوں میں آج ہیں ہم، کل نہیں ہوں گے

عقیدے جانچنے یا کفر کی مہریں لگانے سے

مسائل حل نہیں ہوں گے

بہت کم وقت ہے دیکھو، بہت سا کام کرنا ہے

وہ جو منبر پہ بیٹھا نفرتیں پھیلا رہا ہے، اس سے بچنا ہے

محبت، جاں نثاری اور رواداری کے فولادی عناصر سے

وفا کی اینٹ سے، الفت کے گارے سے

ہمیں ان نفرتوں کو پاٹ کر اک پُل نیا تعمیر کرنا ہے

نئی نسلیں جہاں سے خیر و الفت سے گزر پائیں


مجید اختر

No comments:

Post a Comment